17 جون کا خونی دِن پنجاب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔یہ دِن2 خواتین سمیت گیارہ افرادکی جان لے گیا اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ سوال مگر یہ کہ قصور کِس کا ہے ؟۔حکمرانوں کا ، پولیس کا، علّامہ طاہر القادری کا یااُن عقیدت گزیدہ معصوموں کا جو جان کی بازی ہار گئے ۔شاید قصور معصوموں کا ہی ہو گا کہ ”ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات”۔معاملہ صرف اتنا کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ منہاج ا لقُرآن سیکریٹریٹ اور علّامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے ارد گرد سڑکوں پر لگے بیریئرہٹانا چاہتی تھی جبکہ مولانا کے عقیدت مندوں کو یہ منظور نہ تھا۔
پھرپولیس اور عقیدت مندوں کے مابین طویل تصادم اور مَوجِ خوں سَر سے گزر گئی۔کئی گھروں میں صفِ ماتم بچھی لیکن بگڑا کسی کا کچھ نہیں، پنجاب حکومت کا نہ طاہر القادری کا البتہ قومی و مِلّی جذبات سے عاری کچھ اپوزیشن جماعتوں کی آنکھوں کی چمک میں کئی گُنا اضافہ ضرورہو گیا۔
عملی طور پر سیاسی موت سے دوچارچوہدری برادران یکلخت”اِن ایکشن” ہوئے، لال حویلی والے نے بڑھکیں لگاتے ہوئے اپنا ٹرین مارچ ملتوی کرکے مولانا کی قیادت میںپناہ ڈھونڈ لی اور محترم عمران خاں نے بھی اپنا 23 جون کا ملتوی شدہ جلسہ 27 جون کو کرنے کا اعلان کر دیا ۔خاں صاحب سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہو گئی جو اُنہوں نے پھر سے سیاسی جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کا اعلان کر دیا ہے؟۔
دراصل ہمیں لاشیں بہت مرغوب ہیں اور لاشوں پر سیاست بھی ۔ اسی لیے تو علّامہ طاہر القادری اپنے پیرو کاروں کو جانیں قُربان کرنے کا حکم دیتے رہے۔عینی شاہدین کے مطابق منہاج القُرآن مرکز سے پولیس پر متواتر خشت باری ہوتی رہی ۔اسی دوران مولانا نے ٹویٹر پر پیغام جاری کیا ”یہ میرے کارکنوں کی پہلی آزمائش ہے ، وہ اپنی جانیں قُربان کر دیں گے لیکن سَر نہیں جھکائیں گے ”۔ منہاج القُرآن مسجد کا مقرر عقیدت مندوں کو ”شہادت” کی تحریک دیتے ہوئے متواتریہ کہتا رہا ”مجاہدو! وقتِ شہادت آن پہنچا۔
تمہارے بڑھتے ہوئے قدم پیچھے نہ ہٹنے پائیں”۔ منہاج القُرآن کے سکیورٹی انچارج ایس پی (ر) الطاف شاہ نے پولیس کو دو ٹوک الفاظ میں کہا ” ماریں گے یا مَر جائیں گے” ۔اِس ہَٹ دھرمی کانتیجہ یہ نکلا کہ مولاناصاحب کو حصولِ مقصد کے لیے 11 لاشوں کا چیک مِل گیا جسے وہ پاکستان واپسی پر کیش کروانے کی بھرپور کوشش کریں گے ، قومی سلامتی جائے بھاڑ میں۔
مولانانے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس قتلِ عمد کی ایف آئی آر میاں برادران ، خواجگان ، رانا ثناء اللہ ، پرویز رشید اور چوہدری نثار احمد کے خلاف کٹوائی جائے گی ۔ علّامہ صاحب جسے چاہیں نامزد کر سکتے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ اشتعال دلانے والا بھی اُتنا ہی مجرم ہوتا ہے جتنا کہ جُرم کرنے والااور اپنے اندھے عقیدت مندوں کو اشتعال دلانے میں علّامہ صاحب نے بھی کوئی کَسر تو اُٹھا نہیںرکھی ۔اُنہوں نے تو انتشار پھیلانے کے لیے ذوالفقار مرزا ، ریاض ملک اور الطاف حسین کی طرح قُرآن مجید کا سہارا لیتے ہوئے کلام اللہ ہاتھوں پر اٹھا کر” اینکر” کو انٹرویو دے ڈالا۔علّامہ صاحب سے سوال ہے کہ کیا ربّ ِ کردگار نے حکمت کی آسمانی کتاب اِس لیے نازل فرمائی کہ جس کا جب اور جہاں جی چاہے ہاتھوں پہ اُٹھا کر جھوٹی سچی باتیں کرتا رہے۔
Shahbaz Sharif
مولانا صاحب نے یہ بھی فرمایا ” میاں برادران آٹھ سال تک اُن کے جوتے اُٹھاتے رہے ، شہباز شریف آٹھ سال تک اُن کے جوتے کھولتے اور باندھتے رہے اورنواز شریف کندھوں پر اُٹھا کر غارِ حرا تک لے کر گئے ۔ میاں نواز شریف صاحب نے ماڈل ٹاؤن میں اپنی ذاتی آٹھ کنال زمین دینے کی کوشش بھی کی لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا” ۔مولانا صاحب کو انکار کرنا ہی چاہیے تھا کیونکہ اُن کی نگاہ تو اُس 100 کنال زمین پر تھی جسے بعد ازاںکوڑیوں کے مول مولانا صاحب کے حوالے کر دیا گیا۔
حضرت علی کا قول ہے ”جِس پر احسان کرو ، اُس کے شَر سے بچو۔مولانا صاحب بھلے احسان کرنے والے میاں برادران کو رَگڑا دیتے رہیں لیکن قوم کو معاف کر دیں کیونکہ قوم نے اُن پر کبھی ایسا کوئی” احسان” کرنے کی غلطی نہیں کی جس کی سزا دینے کے لیے وہ کینیڈا سے تشریف لا رہے ہیں ۔وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں” میرے پیروکاروں نے ڈنڈوں اور اینٹوں کی مدد سے تین مرتبہ پولیس کی دَوڑیں لگوائیں لیکن چوتھی مرتبہ ”اُوپرسے” حکم آنے پر پولیس نے گولی چلا دی ”۔اگر پنجاب پولیس بَر بریت پہ اُتر ہی آئی تھی تو مولانا نے بھی اپنے پیروکاروں کو صبر کی بجائے سَر کٹانے کا ہی حکم دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگربیریئرہٹ بھی جاتے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی اور مولانا کی شان و انانیت میں کیا فرق آ جاتا ؟۔ مولانا نے اپنے پیروکاروں کو مزید مشتعل کرنے کے لیے فرمایا کہ اگر وہ جاں بحق ہو جائیں تو انقلاب کی تکمیل تک اُن کی لاش کو دفن نہ کیا جائے ۔ پاکستان تو پہلے ہی خونم خون ہے اب ایسی کون سی کسر باقی بچی ہے جسے وہ پورا کرنا چاہتے ہیں؟۔
میں نے جب ایک نیوز چینل پر ہلاکتوں کی خبر سنی تو بے ساختہ میرے مُنہ سے نکلا کہ یہ سانحہ تو نواز لیگ کی سیاسی موت کے مترادف ہے ۔رائے عامہ بھی سو فیصد یہی تھی کہ نواز لیگ نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری اور سَرا سَر گھاٹے کا سَودا کیا ۔اگر ایک عام آدمی کی یہ سوچ ہو سکتی ہے تو کیا عشروں سے خارزارِ سیاست میں بھٹکنے والے میاں برادران اِس سے بے بہرہ ہونگے؟(ویسے بھی اپنی انقلابی تحریک کے لیے لاشوں کی ضرورت علّامہ صاحب کو تو ہو سکتی ہے ، میاں برادران کو ہر گز نہیں )۔پوری دُنیا میں ہر تفتیش کا محور و مرکز یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی واردات کا فائدہ کِس کو پہنچ سکتا ہے۔
نقصان کِس کو ۔صاف ظاہر ہے کہ اِس سانحے سے علّامہ طاہر القادری کا سیاسی قَد یک لخت بہت اونچا ہو گیا اور میاں برادران کی مقبولیت پر ضربِ کاری لگی ۔اِسی سازش کو بھانپتے ہوئے میاں شہباز شریف صاحب نے 20 جون کو وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ طلب کر لیا اور اپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر کو بھی فارغ کر دیا ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہائی کورٹ کے عدالتی کمیشن پر اعتماد نہیں تو متاثرین سپریم کورٹ کا کمیشن بنوا لیں لیکن علّامہ صاحب تو وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے استعفوں سے کم پر تیار ہی نہیں۔
علّامہ صاحب تو دسمبر 2012ء میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے استعفے سے کم پر تیار نہیں تھے ۔اُنہوں نے اُس وقت بھی بار ہا یہ کہا کہ وہ ہر گز کینیڈا نہیں جا رہے لیکن پھر خاموشی سے کھسک بھی لیے ۔اِس لیے اُن کی باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے عدالتی کمیشن کو یہ ضرور انکوائری کرنی چاہیے کہ پولیس کی سَر براہی کرنے والے ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی تھیں ۔وہ خوب جانتا تھا کہ سارے نیوز چینل کے کیمرے ہنگامے کی کوریج کر رہے ہیں ۔اِس کے باوجود اُس نے گُلو بٹ نامی غنڈے کو پولیس کی سَربراہی سونپ کرنوازلیگ کی بربادیوں کی مذموم داستان رقم کرنے کی کوشش کی اور پورے الیکٹرانک میڈیا کے سامنے اُس غنڈے کو گلے بھی لگا یا۔
میاں صاحب نے فرمایا کہ یہ سب کچھ اُن کے علم میں لائے بغیر کیا گیا ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ انتہائی با خبر خادمِ اعلیٰ کی ناک کے نیچے ہو رہا تھاتو اُنہیں اِس کی خبر تک کیوں نہ ہوئی؟۔جب اُنہوں نے پولیس کو واپس بلانے کا حکم دیا تو اُس پر عمل در آمد کیوں نہ ہو سکا؟۔ جب اُنہوں نے سانحے کے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو کیا کوئی ایک گرفتاری بھی عمل میں آئی؟۔میاں صاحب یہ تو کہتے ہیں کہ اگر وہ قصوروار ثابت ہوئے تو مستعفی ہو کر ہر سزا بھگتنے کو تیار ہونگے ۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر وہ مستعفی ہو بھی گئے تو پھر کیامنوں مٹی تلے دفن ہو جانے والے زندہ ہو جائیں گے؟۔
ایک صوبے کے ”چیف ایگزیکٹو” کی حیثیت سے اُنہیں بہرحال قوم کو یہ جواب تو دینا ہی ہو گا کہ صوبے پر اُن کی گرفت کیوں اور کیسے اتنی ڈھیلی پڑگئی کہ اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا؟۔ ۔۔ حرفِ آخر یہ کہ اِس وقت جب پاک فوج کے غازی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قُربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑی نظر آتی لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے آپریشن ضربِ عضب کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر مزید انتشار پھیلانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ابھی تک ہر نیوز چینل سارا دِن اِسی سانحے پر پروگرام نشر کرکے الاؤ کو مزید بھڑکانے کی بھرپور کوشش میں ہے ۔ مقصد محض یہ کہ ریٹنگ بڑھتی رہے ، مالکان کی تجوریاں بھرتی رہیںاور اِن کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا رہے ۔کیا اسی کا نام حب الوطنی ہے؟۔