منہا ج القرآن سیکرٹریٹ میں پولیس کی طرف سے جو خون کی ہولی کھیلی گئی اور بد ترین ریاستی دہشت گردی کی گئی اُس کی جتنی بھی مذمت کی جا ئے کم ہے کہ کس ظالمانہ طریقے سے جمہوری دورِ حکومت میں لاہور کی پولیس نے نہ جانے ”کس” کے حکم پر نہتے اور بے گناہ نیک سیرت کارکنان کی ”لتر پریڈ ” اور ”چھترول ” کے ساتھ ساتھ جو قتلِ عام کر کے دلخراش اور کریہہ فعل سر انجام دیا ہے پاکستان کی اڑ سٹھ سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جنابِ ”خادم اعلیٰ ” پنجاب اب نہ جانے کیوں اتنے معصوم بن رہے ہیں۔
عین شریف برادران کی ناک کے نیچے ہونے والی مسلسل 12 گھنٹے ہونے والی خون کی ہولی سے ہمارے حکمران بے خبر رہے پولیس نے اپنے ”آقائوں ” کے حکم پرظالمانہ کارروائی کر کے کشور حسین ، مرکز یقین ، پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 20کروڑ ” بے حس ” غریب اوربے کس عوام کوبتا دیا ہے کہ ” اگر حکمرانوں کے خلاف عوامی انقلاب کی بات کی تو مزا چکھا دیں گے ” ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ الیکٹرونک میڈیا کے اس دبنگ دور میں بھی ”شریفین والبریفین” دور میں رہنے والے بے لگام پولیس ملازمین جس دیدہ دلیری کے ساتھ غریب عوام پر ہلاکو اور چنگیز خان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فائرنگ کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ،الیکٹرانک میڈیا کے دور میں حکمرانوں کے کرتوت اب عوامی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے، حکمرانوں کی ایک ایک حرکت کو کیمرے کی آنکھ اب اپنے اندر محفوظ کر رہی ہے۔
وہ مناظر تو کروڑوں لوگوں نے دیکھے ہیں کہ کس طریقے سے پولیس والے وحشیانہ اور ظالمانہ طریقے سے مردو خواتین پر اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیںمحض دو چار بیریئر ہٹانے کے لیے 17تھانوں کی پولیس سابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبد الجبار کی نگرانی میں یہ ظالمانہ کارروائی کرتی رہی ، بر بریت اور وحشت کی یہ مثال تاریخ میں نہیں ملتی ، اب ہمارے ملک میں الٹی گنگا یہ بہہ رہی ہے کہ قاتل معصوم بن گئے ہیں اور مقتول قاتل بن گئے ہیں طاہر القادری کے صاحبزادے حسین محی الدین سمیت سو سے زائد افراد پر ایف آئی آر درج کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟اب حسن محی الدین قادری پر ایف آئی آر خارج کر دی گئی ہے ،اب جو ڈیشل کمیشن بنا دیا گیا ہے ، حمود الرحمن کمیشن سے لے کر اب تک کون سا ایسا کمیشن ہے جس کی بنیاد پر اصل مجرموں تک رسائی ہو سکی ہو ، قلندر لاہوری نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ۔ آبِ حیواں از دمِ خنجر طلب از دہانِ اژدھا کوثر طلب
اقبال کہتے ہیں ہیں کہ تلوار اور خنجر کی دھار سے زندگی طلب کر ، یوں تو کہے کہ مجھے تلوار مارو تاکہ مجھے زندگی مل جائے تو یہ ممکن ہے کہ تلوار کی دھار سے تجھے زندگی مل جائے اس طرح سانپ کے منہ سے تو میٹھا پانی طلب کرے یہ بھی ممکن ہے کہ تجھے میٹھا پانی مل جائے ؟ ”خود ہی قاتل خود ہی منصف ”یہ سب کچھ حکمرانوں کو مہنگا پڑے گا اور نادان دوست حکمرانوں کی کشتی کو بحیرہ جمہوریت میں ضرور غرق کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اُٹھا رہے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار خواجگان ، جو منہ میں آئے اُگلنے والی موچھوں والی سرکار(جن سے اب استعفیٰ طلب کیا جا چکا ہے )شریفین والبریفین کو اپنی ”وفاداری ” کا ”کامل ” یقین دلانے کے لیے اس طرح کی حرکات و سکنات کر تے رہے ہیں جس کا نتیجہ پنجاب اور وفاقی حکومت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
ماڈل ٹائون سانحہ کی بہت بھاری قیمت اِنہیں چُکانا پڑے گی وقت دور نہیں ہے اللہ تعالیٰ ظالموں کی ہر ایک حرکت سے با خبر ہے وہ ڈھیل ضرور دیتا ہے مگر باالآخر اُس کی پکڑ بہت سخت ہے جس کی ایک معمولی جھلک آپ ماڈل ٹائون کچہری میں ”گلو بٹ ” کی عوامی دُھلائی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں اللہ تعالیٰ کی لاٹھی ہمیشہ بے آواز ہوتی ہے وہ لنگڑے مچھر سے خدائی کے دعویدار ”نمرود”کو مروا سکتا ہے تو اِن زمینی خدائوں کو بھی کسی نہ کسی ”ڈینگی مچھر ” سے مروا سکتا ہے۔
اب کی بار بھی اگر طاہر القادری نے لاشوں پر سیاست کرنے کی کوشش کی تو پھر اِن کو بھی کہیں سر چُھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی پچھلی مرتبہ بھی ملک کے لُٹیرے حکمرانوں کے جھانسے میں آگئے تھے اور ”کیتی کرتائی ” پر پانی پھر گیا تھا اب طاہر القادری کو چاہیے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں اور تو پھر دیکھیں گے کہ عوام کس طرح اُن کا ساتھ دیتے ہیں وہ تو ایک کروڑ نمازیوں کی بات کر رہے ہیں اگر قادری صاحب مخلص ہوئے تو کروڑوں لوگ اُن کی کال پر لبیک کہیں گے پیارے قارئین:جب سے ہم نے شعور کی دہلیز پار کی ہے اُس وقت سے ہم نے ”پولیس کا ہے۔
فرض ، مدد آپ کی ” کا نعرہ سُن رکھا ہے مگر پولیس دُکھی اور لاچار انسانیت کی خدمت کی بجائے معاشرے کے چوروں ،وڈیروں ،جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ،زر داروں ،زور داروں ، ، رسہ گیروں ، ڈاکو ئوں ، منشیات فروشوں ، دلالوں ، بد معاشوں کی ”خدمت ” کا فریضہ بڑے احسن انداز سے سر انجام دیتی ہے حالانکہ پولیس اسٹیشن دُکھی ، لاچار ، بے سہارا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کے لیے ایک آماجگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں مگر موجودہ پولیس کلچر کی وجہ سے تھا نے آماجگاہ کی بجائے انسانیت کے لیے ”اذیت گاہ ” کا روپ دھار چکے ہیں اور تھانوں میں جس طرح ایک شریف اور معزز شہری کی عزت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں دیکھ اور سُن کر شرافت کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی کانپ اُٹھتی ہے۔
معاشرے کے بد معاش ،اُچکے ،بھتہ خور ،شراب نوش ، جواری ، بُکیے ،جگہ ٹیکس کھانے والے ، کرائے کے قاتل اور غنڈے کو تو تھانے میں وی وی آئی پی کا پروٹوکول دیا جاتا ہے اور معاشرے کے ایک معزز، با وقار ، تعلیم یافتہ اور محب ِ وطن شہری کو ذلت و رسوائی کی علامت بنا دیا جاتا ہے اس وقت تھانے انسانیت کے لیے ”اذیت گا ہوں” اور تھا نے دار مقا می نمائندگان کے لیے” عشرت گاہوں” کا سامان مہیا کرنے کاکردار ادا کر رہے ہیں علاقے کا ایس ایچ او با قاعدہ بد معاشوں ، غنڈوں ، رسہ گیروں اور شراب و کباب و شباب کے رسیا بد قماش لو گوں کو ”تفریح ” کے وہ تمام ذرائع مہیا کرنے کا پا بند ہو تا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو تا ہے۔
اگر علاقہ کا ایس ایچ او محب ِ وطن اور ذمہ دار ہونے کا ثبوت دے اور اپنی توند کو رزقِ حلال سے بھرنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ علاقہ سے چو روں ، ڈاکوئوں ، رسہ گیروں ، بد قماشوں کا خاتمہ نہ ہو سکے ،ایس ایچ او کے لیے پورا علاقہ ہتھیلی پر رکھے اُس دانہ کی مانند ہو تا ہے جس کا حدود ِ اربع اُس کے سامنے ہو تا ہے ، اگرکسی جاگیر دار اور وڈیرے کی مُرغی بھی گُم ہو جائے تو ایس ایچ او کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں تھانہ کی ساری نفری کو الرٹ کر کے پورے ضلع کی ناکہ بندی کر لی جاتی ہے اور چند سیکنڈ میں گواچی گئی مُرغی کا سُراغ بھی لگا لیا جاتا ہے۔
مُرغی چورگینگ”کو عبرت کا نشان بھی بنا دیا جا تا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی ”گینگ ” کو علاقہ کے جاگیر دار ، وڈیرے ، رسہ گیر ، چور گر اور سرمایہ دار کی پالتو مُرغی اغوا اور چوری کرنے کی ہمت نہ ہو سکے ، مگر دوسری طرف اگر کسی غریب کی بیٹی کی عزت کسی جاگیر دار یا سر مایہ دار کی ہوس کا نشانہ بن جائے اور وہ شراب و کباب و شباب کا رسیہ جاگیر دار اپنے ہوس کے طبلے کی تھاپ پر اُسے نچاتا رہے تو جنابِ ایس ایچ او کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی اور وہ غریب و بے بس انسان کی عزت کو ایک جاگیر دار کی امپورٹِڈ نسل کے ہا تھوں لُٹتا دیکھ کر آنکھوں پر بے حسی کی پٹی اور کا نوں پر کاگ چڑھا لیتا ہے اِس موقع پر جاگیر داروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے جنابِ ایس ایچ او کو نہ کچھ سُجھا ئی دیتا ہے۔
Poor People
نہ ہی کچھ دِکھائی دیتا ہے وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے گویاگونگا ، بہرا اور اندھا پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کر تا ہے اور غریب عوام سڑکوں پر چھوٹا موٹا احتجاج کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں یوں جب عوام احتجاج کر رہی ہوتی ہے علاقہ کا ایس ایچ او اپنی ”خواب گاہ ”میں اُنہی وڈیروں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہو تا ہے جنہوں نے ایک غریب کی عزت کی دھجیاں بکھیری ہوتی ہیں اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ”غریب پرور ”نمائندگان بھی اپنے آپ کو ایسا شو کرانے کی کوشش کراتے ہیں کہ اِن سارے واقعات سے وہ لاعلم ہیں غریبوں کے ووٹوں سے ایوان کی زینت بننے والے ”غریب پرور ”نمائندگان نے بھی ہمیشہ رسہ گیر اور صاحب ِ جاگیر ہی کی حمایت کی ہے۔
کیونکہ اُسے بھی ”عیاشی ” کے تمام تر ذرائع اِنہی لوگوں کی دہلیز سے میسر آتے ہیں ، گلو بٹ جو کہ مسلم لیگ (ن) کا کارکن ہے سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں ایسے کرائے کے قاتل ضرور جمع کرتی رہتی ہیں اورآنے والے وقتوں میں ہوسکتا ہے کہ اسی گلو بٹ کو نون لیگ ایم پی اے کا ٹکٹ دے اوروہ موجودہ کرپٹ سسٹم کے ذریعے منتخب ہو کر اسمبلی کی ”زینت ” بن جائے کیونکہ اب بھی سینکڑوں گلو بٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے تھانوں میں 200سے زائدایسے ٹائوٹس موجود ہیں جنہیں ایس ایچ او کاکارِ خاص کہا جاتا ہے ان کا پولیس کی نوکری سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا مگر یہ کئی تھانیداروں سے طاقتور ہیں اکثرتفتیش اور مقدمات میں ان کی مشاورت شامل ہوتی ہے تھانہ لاری اڈہ میں منیرا کلٹی ، تھانہ نو لکھا میں بلا ، تھانہ شاہدرہ میں شکیل ، تھانہ شاد باغ میں حاجی مقصود مرغیوں والا اورآصف بٹ ، تھانہ شفیق آباد میں حمید بٹ عرف ٹیڈی ،جوکہ واپڈااور پولیس دونوں کا ٹائوٹ ہے تھانہ سبزہ زار میں ذوالفقار جوخود تو پولیس ملازم ہے۔
مگر اس نے تین پرائیویٹ بندے ساتھ رکھے ہوئے ہیں تھانہ ہر بنس پورہ میں حنیف اورعبدالجبار، تھانہ شمالی چھائونی میں لیاقت اور جاوید ، تھانہ گلبرگ میں تین ٹائوٹ فہد ،شہزاد بٹ اورصداقت، تھانہ مغل پورہ میں منظوراحمد ، تھانہ شالیمار میں جاوید، تھانہ گجر پورہ میں فیاض بھٹی اور بھولاچنے والا، تھانہ مزنگ میں اویس ،تھانہ اقبال ٹائون فیصل بٹ ،تھانہ جوہر ٹائون میں تین کارِ خاص ہیں جن میں مظہر ، ثاقب اور مظفر ، تھانہ فیصل ٹائون میں قمر ، تھانہ غالب مارکیٹ میں ارشد ، تھانہ شادمان ارشدگجر ،تھانہ شاہدرہ میں عرفان سلہری ، تھانہ باٹاپور میں بشیر ، تھانہ ستوکتلہ میں رشیدپراپرٹی ڈیلر اور جاویدبٹ شامل ہیں ان ٹائوٹس کے ذریعے تھانوں میں آنے والوں کے ساتھ مک مکا کیا جاتا ہے تھانوں کی منتھلی اکھٹی کرنا بھی ان کا کام ہو تا ہے پولیس اہلکاران ٹائوٹس کو سیکنڈ صاحب کہہ کر پکارتے ہیں کئی پولیس اہلکار توچھٹیاں بھی اِنہی کے ذریعے منظور کراتے ہیں لاہور کے کئی ایسے تھانوں میں گلو بٹ موجود ہیں جو رہتے بھی تھانوں میں ہیں اوروارداتیں تک کرتے ہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب جناب ِ میاں شہباز شریف نے پولیس کلچر کی اصلاح کے لیے اربوں روپے خرچ کر ڈالے مگر تھا نہ کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکی ، وہی چھتر پریڈ ، رولا کریسی کے خوفناک منظر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیںا س موقع پر 12بے گناہ لوگوں کی شہادت پراور 100سے زائد کارکنان کے شدید زخمی ہونے پرممی ڈیڈی اور فارن پیڈ ، فارن فنڈڈاین جی اوز کے گماشتے خاموش کیوں ہیں ؟اسلامک شعائر کی بے حرمتی اور مذاق اُڑانے میں تو مغربی این جی اوز کے گماشتے صفِ اول میں پاگلوں کی طرح پھرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔کہاں گئے ”سیپ ” کے نام نہاد انسانی حقوق کے چمپیئن اور آسیب ۔۔۔۔؟ جو بھوکی ننگی انسانیت کے نام پر آج کروڑوں کے مالک بن گئے ہیں۔
جب بھی طاہر القادری اپنی ”کچھار ”سے شیر کی طرح نکل کر غریب عوام کو شعور دلانے کی انگڑائی لیتے ہیں تو”دیہاڑی دار ” اور شریفین والبریفین ”کے نمک خوار حقِ نمک ادا کرتے ہوئے ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ”نظر آتے دکھا ئی دیتے ہیںکیونکہ اِن ٹَٹ پونجوں کو معلوم ہے کہ اگر طاہر القادری نے انگڑائی لی تو امریکہ کے وفاداراور کوٹھے پر بیٹھی جنسی طوائف کی طرح یہ ”قلمی طوائف ”بھی جو ایڈ ہاک بنیادوں پرالفاظ کی حرمت کا ”اتوار بازار ” سجاتے ہیںاپنی دیہاڑی کھری کرنے کی لت سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ انقلابِ زمانہ میں ایسے ”قلمی قوال ” صفت لوگوں کو چوک چوراہے میں اُلٹا لٹکا کرحرام کمائی سے پلی اُن کی کھال ایسے اُتاریں گے جیسے اناڑی قصائی عید ِ قرباں کے موقع پر بکرے کی اُتارتا ہے ،حافظ شفیق الرحمن صاحب نے بھی میری باتوں کی تائید کی اور کہنے لگے کہ بینائی سے یکسر محروم اور روشنی سے ڈرنے والی چمگادڑیں معترض ہیں کہ سورج کا چہرہ اتنا تا باں ، درخشاں ، رخشاں ، فروزاں اور روشن تر کیوں ہے؟
فارن فنڈڈ این جی اوز کی منحوس اور مکروہ شکل میں بجھی ہوئی راکھ کے بے نور ذر و ں کی طرح ”سویرے سویرے ”گنتی کے چند کالم نگاربھی جن میں ”شریفین والبریفین ”کی بے تُکی تعریف میں قلم کے ساتھ ساتھ ایڑیاںاور ناک رگڑنے والے ناروے کی سفارتکاری حاصل کرنے اور اب ادب کے نام پر کروڑوں روپے کی رقم لے کر ” بے ادبی ” کو فروغ دینے والے اور ‘ ‘جاتی اُمراء ”کی یاترہ کرنے والے بغیر ہاتھ منہ دھوئے چمکتے دمکتے ستا روں پر تنقید کر رہے ہیں ، مین ہو لوں پر گندے نا لوں میں بو دینے والی گلی سڑی گار مشک اذفر کی عنبر افشانی پر حرف گیری کا شکار رہی ہے ،کالے بھجنگ کوے مور کے پروں کی چمن آرائی و دلکش رعنائی و زیبائی پر زبانِ طعن دراز کر رہے ہیں گندگی کے متعفن ڈھیر پر پڑی خشک ٹہنیاں ، صندل کی ڈالی پرطنز کر رہی ہیں اونے پونے داموں پر بِکنے والے بونے ا س وطن عزیز کوویران جزیرہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں چاند کی طرف منہ کر کے تھوکنے والے چاند کے حُسن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ”خدمت انسانیت ” کے نام نہاد چیمپیئن کی طرح یہ دیہاڑی دار ”کالم نگار ”بھی جنہوں نے اپنے مکروہ زدہ اور منحوس چہروں پر نہ جانے کتنے چہرے سجا رکھے ہیں۔
وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان پھلے پھولے ، ترقی کرے ، خوشحال ہو اور یہاں پر اسلامی نظریات کی ترویج ہو وہ اپنے مکروہ اور بھیانک عزائم کے ساتھ وطن عزیز کے پسماندہ علاقوں اور جہالت کے جزیروں میں اپنے غلیظ و کثافت سے لبریز منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے طرح طرح کے کھیل ، کھیل رہے ہیں مگر ایک بات یاد رہے کہ درویش منش انسان واصف علی واصف نے کہا تھا کہ ” پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے ” اور سرزمین پاکستان کے لیے نیت نیتی کے ساتھ جدوجہد کرنے والے بھی ہمیشہ معاشرے کے ماتھے کا جھومرہی رہیں گے صاحبو !جب ہمارے کالم نگار وطن کی زمین کی حُرمت اور رزق ِ حلال کی بجائے دوسروں کے چبائے ہوئے لقموں پر جُگا لی کرنے کے عادی ہو جائیں۔
بلندیوں کے آکاش پر آشیاں بندی کرنے والے ”خود نمائی ” اور ”جی حضوری ”کی دلدل میں پھنس جائیں اپنی فکر کو رعنائی کے لیے نہیں بلکہ ”خود رو نمائی ”کے لیے استعمال کرنے لگیں بڑبولے سیاستدان سیاست کو عبادت کا جُبہ پہنانے کی بجائے اَمارت کا چُغہ پہنادیں ، منصف انصاف کے ترازومیں توازن پیدا کرنے کی بجائے ”لچک ”کے بہانے تراشیں ، سماجی لوگ فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ و فارن میڈ این جی اوز کے پلیٹ فارم پر عوام میں فلاح و بہبود اور حرکت کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے ہنود و یہود کی سوچ اور جمود کو عام کریں مورخین آئندہ نسل کو حالات کی صحیح تصویر پیش کرنے کی بجائے در بار اور سرکار کی تا بعداری میں تاریخ مرتب کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں کھپادیں۔
دانشور اپنی دانش کے گلزار نچھاور کرنے کی بجائے نفرت کے خار بر سانا شروع کردیں ، علماء دھند میں لِپٹے ماحول کو اپنی خوش الحانی سے صاف کرنے کی بجائے شعلہ بیانی سے دھند کو مذید گہرا کر دیں ، گدی نشین اپنی نگاہوں کی تاثیر سے ہزاروں سائلین کی تقدیر بدلنے کی بجائے جب اپنی نگاہیں ”مرید ” کے نذرانوں اور تحائف پر مرکوز کردیں تو ایسے ماحول کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے ہمہ جہت انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے مگر گھنٹی کون باندھے ؟ایسے گھمبیر حالات میں قوم کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں ہوتی ہے جو اِ ن کے رِستے زخموں پر مرحم رکھ سکے۔ تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہو نے کا اتنا ہی یقین تھا