لیہ (طارق پہاڑ) جنوبی پنجاب کا پسماندہ ضلع لیہ تعلیمی لحاظ سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں ذہانت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ درجنوں طلباء تعلیم حاصل کر کے اس وقت ڈاکٹر انجینئر بننے کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس میں افسر ہیں۔ ضلع بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس وقت صنعت کا درجہ اختیار کر لیا ہوا ہے۔ یہاں پر مقامی ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ کی کوششوں سے اس وقت بہاول الدین ذکریا یونیورسٹی کا کیمپس ایم پی اے کے والد کے نام سے بہادر کیمپس رکھا گیا ہے۔ یہاں پر گورنمنٹ کالج فیصل آباد ، اور سرگودھا یونیورسٹی کے کیمپس بھی موجود ہیں۔ جہاں پر ایم اے ، ایم ایس سی سمیت بی اے ، بی ایڈ ، ایم ایڈ ، ایم فل کی کلاسیں چل رہی ہیں۔ لیکن ان اداروں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ عام نوجوان ان داخلہ لینے کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔
دیگر سرکاری اداروں میں ٹیکنیکل کالج ، کامرس کالج ، پوسٹ گریجویٹ کالج اور نرسنگ کالج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح لیہ کی تحصیل کروڑ میں ڈگری کالج گرلز و بوائز اور کامرس کالج موجود ہے۔ یہاں پر کامرس کالج کی بلڈنگ کو بنے دو سال ہونے کو ہیں لیکن کالج ہٰذا کو محکمہ صحت کی چھوٹی سی بلڈنگ میں چلایا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ہائر کلاسسز نہ لگ سکی ہیں۔ ادارہ کے پرنسپل ملک کرم علی پشیا نے اس کا ذمہ دار محکمہ بلڈنگ اور محکمہ واپڈا کو ٹہرایا۔ جن کی وجہ سے کالج نئی بلڈنگ میں شفٹ نہ ہو سکا ہے۔ جبکہ گرلز کالج کروڑ کی بس فنڈ نہ ہونے سے کافی عرصہ سے گیراج میں کھڑی ہے۔
اسی طرح فتح پور ، چوک اعظم ، کوٹ سلطان اور 90/ML سمیت تحصیل چوبارہ جیسے پسماندہ علاقے میں ڈگری کالج موجود ہے۔ جبکہ یہاں پر ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن نے 5 کروڑ روپے کی گرانٹ سے کامرس کالج کو فنڈنگ کی ہے۔ جس پر کام جاری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضلع بھر کے خصوصاً گرلز کالجز کی طالبات سٹاف کی کمی یا تعلیمی میعار کے فقدان کے باعث کالجز میں داخلے کی حد تک تو ہوتی ہیں۔ لیکن پرائیوٹ اداروں اور اکیڈمیوں میں تعلیم حاصل کر کے امتحان دے رہی ہوتی ہیں۔ اور سٹاف آرام سے تنخواہیں وصول کر کے حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگا رہا ہے۔ جس سے اداروں کے تعلیمی میعار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
لیہ میں پرویز الٰہی دور میں اس وقت کے ایم پی اے مہر فضل حسین سمراء نے کروڑوں روپے نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برائے خواتین بنوائی جس کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا لیکن حکومت کے تبدیل ہوتے ہی شریف برادران نے اس دور کے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل یونورسٹی برائے خواتین کا کام بھی روک دیا۔ اور اب اس جگہ پر BZU کی کلاسسز لگائی جا رہی ہیں۔ اگر ٹیکنیکل یونیورسٹی کو فنکشنل کر دیا جاتا تو اب تک ضلع لیہ کی ہزاروں طالبات انجینئر اور ہنرمند بن چکی ہوتی۔ اور ملک و ملت کا نام روشن کر رہی ہوتی۔ ضلع لیہ میں معذور بچوں کیلئے کوئی ہائی سکول موجود نہیں ہے۔
امسال ضلع بھر کے 30 سپیشل بچوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور 50 کے قریب بچے ہشتم جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔ ہائی سکول نہ ہونے سے کامیاب طلباء کو ڈی جی خان اور ملتان میں بھی داخلہ نہ مل سکا۔ جس کے بعد بچوں کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ اور اب تک سیشن شروع ہوئے تین ماہ ہونے کو ہیں لیکن سپیشل بچوں کو کتابیں نہ مل سکی ہیں۔ چوک اعظم میں میاں شہباز شریف کی جانب سے دانش سکول کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا لیکن آج تک قائم نہ ہو سکا ہے۔
ضلع لیہ کے اکثر دیہاتوں خصوصاً تحصیل چوبارہ اور نشیبی علاقوں میں اب بھی درجنوں سکول بغیر چھت اور چار دیواری اور عملہ کے چل رہے ہیں۔ جہاں پر ایک سکول میں صرف ایک استاد ہے جو کہ درجہ چہارم کے ملازمین کا کام بھی خود کرتا ہے۔ ان سب مسائل کے ہونے کے باوجود لاہور میں بیٹھے حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ ضلع لیہ کے عوام کب تک لاہور والوں کو راہ تکتے رہیں گے۔