وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ پولیس کے ساتھ تصادم میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے المناک واقعہ کے حوالے سے انصاف کے تقاضے ہر قیمت پر پورے کیے جائیں گے ا وراس اندوہناک واقعہ کے ذمہ دار سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ پولیس کے ساتھ تصادم کے باعث قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید صدمہ پہنچا ہے اور میرا دل بہت غمزدہ ہے۔مجھے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین ،عوامی تحریک کے قائدین اور کارکنوں کے جذبات کا مکمل احساس ہے۔
اندوہناک واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کے لئے عدالتی کمیشن نے کام شروع کردیا ہے اور انشاء اللہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں حقائق جلد قوم کے سامنے آئیں گے۔عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر من وعن عمل کیا جائے گااور ذمہ دار کسی بھی صورت قرار واقعی سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کبھی بھی لاٹھی گولی کی سیاست نہیں کی ،ہم نے ہمیشہ عوام کی خدمت اورشرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے اور آئندہ بھی خدمت خلق اور شرافت کی سیاست ہی کریں گے۔ شہباز شریف اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ رکاوٹیں ہٹانے کے لئے عوام پر ظلم کیا جائے۔
انصاف اور قانون کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیں گے اورزخمیوں کے ریکارڈ میں بھی رد وبدل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گااوراس سلسلے میں پولیس کی اعلی قیادت اورصوبائی انتظامیہ کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں انصاف اور انسانیت کے نام پر منہاج القرآن کی انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیں کیونکہ عدالتی عمل ہی انصاف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے اوراس کا بائیکاٹ مرحومین اور ان کے لواحقین کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ میں متاثرین کو ہر قیمت پر انصاف دلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہوںاورانسانی جانوں کے ضیاع کے ذمہ داروں کو سزا دلانے کے لئے کمیشن کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔
ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے تعزیت کے لئے ہمارے وزراء کے وفد سے ملاقات نہ کرنے کے باوجودپنجا ب حکومت انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔ مسلم لیگ(ن) کے چیف کوآرڈینیٹر محمد صدیق الفاروق نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور میں12 لاشیں گرانا آئینی حکومت کے خلاف قادری۔چودھری لندن پلان کا حصہ ہے جس پر منہاج القرآن کے مسلح کارکنوں اور پرویزالٰہی کے چندوفادار پولیس ملازمین کو استعمال کیاگیا۔
مئی میں لندن میں ”قادری۔چودھری” سازشی ملاقاتوں میں لندن پلان بنایا گیا۔ اس کے تحت طاہر القادری نے پروگرام تبدیل کر کے جولائی کی بجائے جون میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ تحریک چلانے کیلئے سازگار ماحول بنانے کی خاطر کسی نہ کسی طرح کچھ لاشیں گرا کر عوام کی ہمدردی حاصل کی جائے۔ ان سازشی کرداروں نے رکاوٹیں ہٹانے کے عمل سے لندن پلان کے مطابق فائدہ حاصل کیا۔ ایک پولیس ملازم سمیت 12افراد کے قتل کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور مجرموں کا تعین کرنے کیلئے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے جوڈیشل کمیشن قائم کرکے اس سازش کو ناکام بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
طاہر القادری کے لوگ کمیشن میں پیش ہوں یا نہ ہوں مجھے امید ہے کہ کمیشن اپنے مینڈیٹ کے مطابق تحقیقات مکمل کر کے حقائق قوم کے سامنے پیش کرے گا۔ لندن پلان بے نقاب ہونے کے ڈر سے ”قادری۔چودھری ”گٹھ جوڑ نے عدالتی کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ 1990ء میں جب طاہر القادری نے اپنے گھر پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا تو ہائی کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن میں اس ڈرامے کا پول کھل گیا تھا اور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے 8اگست 1990ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں طاہر القادری کو جھوٹا ، ڈرامہ باز ، احسان فراموش اور پبلسٹی کا بھوکا قرار دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کی روشنی میں طاہر القادر ی آئین کی دفعہ62اور 63 پر بھی پورا نہیں اترتے۔ 12مئی 2007ء کو جب کراچی میں 50شہریوں کو گولیوں سے بھون دیا اور 9وکلائکو چیمبروں میں زندہ جلا دیا گیاتو اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں مکا لہراتے ہوئے اسے ”حکومت کی طاقت کا مظاہرہ” قرار دیااور عدالتی تحقیقات کرانے سے یکسر انکار کر دیا۔چودھری برادران بھی اس کارروائی کا مرکزی کردار تھے جبکہ طاہر القادری اس سانحے پرخاموش رہے تھے۔
جبکہ جمہوری دور میںماڈل ٹاؤن سانحہ ہوا تو حکومت نے تمام حقائق سامنے لانے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا اور ضرورت پڑنے پر وزیر اعلیٰ نے خود عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا اعلان کیااور تحقیقات کو شفاف بنانے کیلئے وزیر قانون ، پرنسپل سیکرٹریوں کو ان کے عہدوں سے علیحدہ کر دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بندوق اٹھانے کا حلف لینے والا ”جھوٹا اور دغاباز ”طاہر القادری اب مسلح افواج سے تعلق اور محبت کا جھانسا دے رہے ہیں۔” قادری۔ چودھری ”گٹھ جوڑ اشاروں کنایوں اور افواہوں کے ذریعے اپنے آئین اور ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلح افواج کی حمایت کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
General Raheel Sharif
حالانکہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مسلح افواج پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کی ہدایت پر میدان عمل میں اتر چکی ہیں اور قوم ان کے اس کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں انتخاب لڑنے کیلئے نااہل طاہر القادری اپنے مادر وطن کینڈا میں بیٹھ کر پاکستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلانا چاہتا ہے۔طاہر القادر ی سن لے پاکستان لاوارث ملک نہیں ہے۔ بیس کروڑ عوام اور مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس ملک کے وارث ہیں۔ ”قادری۔چودھری” گٹھ جوڑ اب عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اور ذلت آمیزشکست ان کا مقدر بن چکی ہے۔ صدیق الفاروق نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل حقائق تک پہنچنے کے لئے مندرجہ ذیل سوالات بھی تحقیق طلب ہیں۔ ٭منہاج القرآن کی بلڈنگ کی چھت پر سے کس نے گولی چلا کر پولیس ملازم کو قتل کیا۔
این جی اور منہاج القرآن کے ملازمین اور طلباء کو ڈنڈے کس نے سپلائی کئے۔ ٭عمارت کے باہر پولیس پر اینٹون کی بارش کرنے کیلئے کس نے نئی اینٹوں کے ٹرک سپلائی کئے۔ ٭کیا طاہر القادری صاحب نے ٹویٹر پر چھ بج کر بتیس منٹ پر اپنے کارکنوں کے لئے یہ پیغام نہیں دیا کہ ”میرے ورکروں کیلئے یہ پہلا امتحان ہے۔ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن ریاستی دہشت گردی کے سامنے اپنے سر نہیں جھکائیں گے ” اور کیا اس کا مقصد اپنے کارکنوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کیلئے مشتعل کرنا نہیں تھا۔ ٭منہاج القرآن کی عمارت کے اندر سیکورٹی کیمروں کی فوٹیج اب تک تحقیقاتی ٹربیونل کو اب تک کیوں پیش نہیں کی گئی۔ ٭ادارہ منہاج القرآن ایک غیر سیاسی این جی او ہے۔
کیا اس کا سیاسی استعمال کرنا جرم نہیں ؟ ٭کیا منہاج القرآن کے طلباء ، اساتذہ اور ملازمین کو سیاسی جلسوں ، جلوسوں اور مارکٹائی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٭طاہر القادری کس قانون اور کس حیثیت میں مسلح افواج کو اسلام ائیر پورٹ اور ماڈل ٹاؤن کو قبضے میں لینے کی ہدایت جاری کر سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں صدیق الفاروق نے کہا کہ طاہر القادری کے اصل کردار سے پردہ اٹھانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ کی تحقیقاتی رپورٹ ، نعت گو شاعر مظفر وارثی کی کتاب ، ان کے محسن ملک فیض ، منہاج القرآن کے بانی مفتی محمد خان قادر ی ، ان کے سابق پریس سیکرٹری سمیت سینکڑوں علماء اور صحافیوں کے بیانات اور کالموں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے نام نہاد خوابوں پر مبنی دعووں کا مطالعہ ضروری ہے۔
Nawaz Sharif
وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش 180ـ H ماڈل ٹاؤن کے گرد قائم حفاظتی باڑ کو 1994ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ منظور وٹو نے رات دو بجے بلڈوز کروا دیا تھا۔ اس وقت محمد نواز شریف ، محمد شہباز شریف اور ان کے والد گرامی میاں محمد شریف اور پارٹی کے سینکڑوں کارکن موجود تھے لیکن نواز شریف نے مشتعل پارٹی کارکنوں کو جوابی کاروائی سے روک دیا تھا۔