عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری گزشتہ برس بھی ریاست بچائو کا نعرہ لگا کر جب قادری پاکستان آئے تھے تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اسلام آباد میں انکے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا تھا ،چار روز تک ہزاروں کی تعداد میں عوام کے ساتھ بیٹھنے کے باوجود ”کھودا پہاڑ، نکلا چوہا” کے مصداق کچھ حاصل نہ ہوا اور جناب نے نہ صرف انتخابات کا بائیکاٹ کیا بلکہ دوبارہ کینیڈا واپس چلے گئے کیونکہ وہ دو ملکوں کے شہری ہیں، طاہرالقادری کی حالیہ پاکستان آمد سے قبل چوہدری برادران نے ان سے ملاقات کی تھی اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت پنجاب نے قادری کے وطن واپسی کے اعلان کے بعد ماڈل ٹائون میں جو کیا اسکے بعد اپوزیشن کی تما م جماعتیں متحد نظر آئیں ،حکومت نے بھی غلطی تسلیم کی او ر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خود کو انصاف کے لئے پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر جوڈیشنل کمیشن انہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے،اس واقعہ کے بعد انکی چھ سالہ محنت پر پانی پھر گیا ہے،طاہر القادری نے اسلام آباد ایرپورٹ پر اترنا تھا ،مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت نے انکے استقبال کی اعلان کیا تھا،وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ جہاز کو نہ واپس بھیجا جائے گا نہ رخ موڑا جائے گا،عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنان اسلام آبادپنڈی پہنچے، حکومت نے سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کر رکھے تھے،، مختلف شہروں سے اسلام آباد آنے والے راستوں کو بند کیا گیا تھا جس سے عوام کو بے حد مشکلات کا سامنا رہا۔ بھیرہ سے سرگودھا،اسلام آباد جانے کے لئے موٹر وے بندکی گئی اورپولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے، مسافروں کے علاوہ تمام غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ۔ایرپورٹ جانے والے راستوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے اسلام آباد میں عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔ اے ایس ایف اہلکار اور ستر سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے منتظر کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں پندرہ کارکن زخمی ہوئے۔عوامی تحریک کے کارکنوں نے مختلف مقامات پر پولیس پر دھاوا بول دیا پولیس کی جانب سے روکے جانے کی کوشش کے بعد عوامی تحریک کے کارکن مشتعل ہو گئے۔ ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھائے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں پر پل پڑے۔ پولیس پر پتھراؤ اور لاٹھی چارج کیا اور اہلکاروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ کارکنوں کے پتھراؤ اور لاٹھی چارج سے زخمی اہلکاروں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں اکتیس جبکہ اسلام آباد کے اسپتالوں میں بیالیس زخمی اہلکار لائے گئے۔ ڈی ایچ کیو اسپتال راولپنڈی میں ستائیس، بینظیر بھٹو اسپتال میں دو پولیس اہلکار، ایک اے ایس ایف اہلکار جبکہ ہولی فیملی اسپتال میں ایک پولیس اہلکار کو لایا گیا۔ سترہ زخمی اہلکاروں کو اسلام آباد پمز اسپتال منتقل کیا گیا جن میں اسلام آباد پولیس کے سات اہلکار پنجاب پولیس کا ایک اہلکار اور آزاد کشمیر پولیس کے نو اہلکار شامل ہیں۔
پولی کلینک اسلام آباد میں پچیس زخمی پولیس اہلکار لائے گئے۔ مشتعل کارکنوں نے کئی مقامات پر رکاوٹیں بھی گرا ئیںیں اور کئی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے منتظر کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ، شیلنگ اور لاٹھی چارج سے علاقہ میدان جنگ بنا رہا جھڑپوں میں پندرہ کارکن زخمی ہوئے۔ڈاکٹر طاہر القادری دبئی سے نجی ایئر لائن کی پرواز ای کے 612 سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تاہم راولپنڈی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد ان کے طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا اور طیارے نے 9 بج کر 35 منٹ پر لاہور کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے طیارے سے باہر آنے سے انکار پر طیارہ ایئرپورٹ پر ہی کھڑا رہا۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ طیارہ لاہور اتارنے کا فیصلہ مسافروں اور طاہر القادری کی حفاظت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ طاہر القادری پاک فوج کو مخاطب نہ کریں۔ فوج کا تعلق ملکی دفاع سے ہے, اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ طاہر القادری ہائی جیکروں کی طرح طیارے میں بیٹھ کر اپنی ڈیمانڈ پیش کر رہے ہیں۔
Pervez Rasheed
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ عملی طور پر ڈاکٹر طاہر القادری نے غیر ملکی طیارے کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ طیارے میں ڈاکٹر طاہر القادری لاقانونیت کر رہے ہیں اور سڑکوں پر ان کے کارکن قانون میں ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے ہمدرد ہیں تو وہ سڑکوں پر ایسے حالات پیدا نہ کریں جس سے دہشتگردوں کو فائدہ پہنچے۔ ہم پاکستان کو بڑے حادثے سے بچانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں کوئی دہشتگردی کر جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) لاشوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری اور فرض ہے۔ ہم عوام کے جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اسلام ائیر پورٹ کے باہر کارکنوں کا ہجوم دندناتا پھر رہا تھا۔ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا تھا۔ اس لئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور مسافروں کی حفاظت کیلئے طیارہ لاہور میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طاہر القادری ا?زاد شہری ہیں، انھیں قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ طاہر القادری کو گھر منتقل کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر فراہم کر دیا گیا ہے۔لاہور ایر پورٹ پر طاہر القادری نے طیارے سے نکلنے سے انکار کیا اور کہا کہ میں لاہور نہیں اتروں گا، طیارہ واپس اسلام آباد لے جایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک گھنٹہ ہوا میں ہی رکھا گیا، ریاستی دہشت گردی کی انتہا ہوگئی ہے،کیا حکومت مزید خون بہانا چاہتی ہے،دفاعی ادارے کیوں خاموش ہیں؟ پاک فوج کو نوٹس لینا ہوگا، ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مداخلت کرے، پوری قوم کی نگاہ پاک فوج پر ہے۔
طاہر القادری نے کہا کہ وہ موجودہ حکومت کے کسی بھی اہلکار سے بات نہیں کریں گے اور صرف کسی فوج کے اہلکار سے ہی بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اعتماد صرف اور صرف فوج کے اہلکاروں پر ہے اور انہیں سے ہی بات کروں گا۔ ان کا کہنا تھاکہ مسافر اسلام آباد جانا چاہتے ہیں۔ساتھ گھنٹے تک قادری طیارے میں ہی بیٹھے رہے حکومتی مشنری غائب نظر آئی ،وفاقی و صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ان سات گھنٹوں میں خاموش رہیں ،سات گھنٹے تک طیارے میں رہنے کے بعد طاہر القادری نے 3 شرائط پر طیارے سے باہر آنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے مطالبہ کیا کہ ذاتی سیکیورٹی میں اپنے گھر جا ئیں گے اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی ان کے ہمراہ جائیں گے اور سیکیورٹی گارڈز کو رن وے پر آنے کی اجازت دی جائے، میڈیا کی گاڑیاں بھی میرے ساتھ جائیں گی اور بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر ماڈل ٹاون میں واقع القادریہ ہاؤس جائیں گے۔
بعد ازاں حکومت میں شامل چند شخصیات کی ثالثی کے بعد معاملہ حل کرلیا گیا اور وہ طیارے سے اتر کر خصوصی گاڑی میں سوار ہوکر جناح اسپتال پہنچے ان کے ہمراہ گورنر پنجاب چوہدری سرور اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ بھی تھے، اسپتال میں انہوں نے سانحہ لاہور کے زخمیوں کی عیادت کی۔گورنر پنجاب چوہدری سرور جناح ہسپتال سے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے اور طاہر القادری وہاں سے مرکزی سیکرٹریٹ پہنچے۔جناح ہسپتال میں طاہر القادری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے ہمارے کارکنوں کی لاشیں گرائیں، وہ اپنے وعدے کے مطابق پاکستان آگئے ہیں اب مظلوموں،مجبوروں اور شہیدوں کاانتقام لیں گے۔ ہمارے کارکنوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے، پاکستان کی 65 سال کی تاریخ میں اس ظلم کی مثال نہیں ملتی، ہمارے کارکنوں نے اپنی جانوں کانذرانہ دیا۔
ایسے موقع پر ہمارے ساتھ اس ملک کا میڈیا تھا جس نے ظلم کی تمام روداد دنیا کے سامنے رکھی جس پر وہ جتنا شکریہ ادا کریں وہ کم ہے۔ وہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، شیخ رشید احمد، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف کئے گئے ظلم پر آواز بلند کی۔