تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات گزشتہ تقریباً ایک سال سے جاری تھے۔ ان مذاکرات کی حمایت جماعة الدعوة سمیت ملک کی تمام اہم مذہبی وسیاسی جماعتوں نے کی جن میں پیپلزپارٹی تحریک انصاف اورجماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ان مذاکرات کے دوران بہت سے اتارچڑھاؤ آتے رہے۔کچھ عرصے کے لیے اگرچہ ان مذاکرات کے دوران امن وامان اور سکون کاماحول بھی نظرآنے لگاتھا’تاہم مذاکرات کے دوران جب طالبان کی طرف سے مطالبات کی لمبی لسٹ سامنے آئی اوردوسری طرف سے ان مطالبات کی منظوری میں فطری طورپرغور وخوض کچھ طویل ہواتوعجلت پسند طالبان نے مذاکرات کے دوران ہی ردّعمل دکھاناشروع کردیااور ایک بارپھرخودکش حملے اوردھماکے ہونے لگے’ یہی نہیں بلکہ فوجی اہداف پربھی دوبارہ حملے شروع کردئیے گئے۔
نتیجتاً فوج کو بھی جواباً دہشت گردوں پرحملے کرناپڑے تاکہ مذاکرات کوحکومت یافوج کی کمزوری نہ سمجھ لیاجائے۔ یہ آنکھ مچولی ابھی جاری تھی کہ اس دوران ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے کاشکارہوگئے جس کے بعدخود ٹی ٹی پی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ان میں سے خالد سجناجیسے گروپ پاکستان میں کسی بھی طرح کے حملوں کے خلاف تھے ۔تاہم فضل اللہ گروپ جوبڑاگروپ ہے’وہ اپنے موقف اوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہا۔ٹی ٹی پی میں پھوٹ پڑنے کے اس عمل کے دوران بھی اگرچہ حملوں اوردھماکوں کے لحاظ سے کچھ سکون رہالیکن یہ خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا اندیشہ اورخطرہ ملک کے حساس طبقے پہلے سے محسوس کررہے تھے۔ 8 جون 2014ء کو کراچی ائیرپورٹ پردہشت گردوں نے زبردست حملہ کردیا۔
اس حملے میں 16 گھنٹے تک ائیرپورٹ بندرہا۔ کئی طیاروں اور عمارتوں کوآگ لگ گئی۔ دو درجن کے قریب عملے اورفورسز کے اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حملے میں اگرچہ پاکستانی فورسز نے بڑی جرأت وبہادری سے دہشت گردوں کو بڑے اہداف تک نہیں پہنچنے دیا’دہشت گرد صرف پرانے ائیرپورٹ اورکولڈسٹور یج تک محدود رہے اور وہ نئے ائیرپورٹ تک نہ بڑھ سکے ‘نہ وہ اپناخوفناک اسلحہ استعمال کرسکے جس میں راکٹ لانچرتک شامل تھے۔اگرایک بھی راکٹ چل جاتا اورکوئی مسافر طیارہ نشانہ بن جاتا تو تباہی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہونا تھی۔ ائیرپورٹ پر آئل ڈپو بھی آگ لگنے سے محفوظ رہا ‘ ورنہ اسے آگ لگنے سے بھی بہت زیادہ نقصان ہوناتھا۔ تاہم اللہ کاشکرہے کہ ہماری فورسز کے بروقت ایکشن کی وجہ سے بڑی تباہی ٹل گئی۔
فورسز نے صرف اڑھائی تین گھنٹے میں تمام دہشت گردوں کاصفایاکردیا جبکہ کچھ دہشت گردوں نے خودکش جیکٹ سے خود کواڑالیا۔ ان حملوں کی ذمہ داری اگرچہ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے فوری طورپرقبول کرلی لیکن دودن بعد یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ تمام حملہ آور ازبکستانی تھے اوران کاتعلق ازبکستان اسلامک موومنٹ سے تھا۔ ازبکستان اسلامک موومنٹ نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی اور اس نے تمام 10حملہ آوروں کی فائل فوٹوز بھی میڈیاکوجاری کردیں جوکہ واقعی حملے میں شامل نوجوانوں کی ہی تصاویرتھیں۔ اس حملے کی مزید تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی اب میڈیامیں منظرعام پر آچکی ہے کہ ان ازبک نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف گمراہ کرکے استعمال کرنے والا اصل سرغنہ بھارت ہے جس نے تاجکستان میں ازبکستان کی سرحد کے قریب فارخورائیرپورٹ پردہشت گردی کی ٹریننگ کاایک کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
کراچی ائیرپورٹ پرحملہ آوروں سے جواسلحہ برآمدہوا’اس کی بھی رینجرز اوردوسرے ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ تمام کاتمام تقریباً بھارتی اسلحہ تھا۔خصوصاً اس میں ایسے انجکشنز بھی سامنے آئے جو زخمی حالت میں خون کو روکنے اورزیادہ دیرتک زندہ رہنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔فیکٹر8نامی یہ انجکشنز بھی بھارتی نکلے۔ان پر میڈان انڈیاواضح لکھانظرآیا۔ حملہ آوروں سے بھارتی اسلحہ کی برآمدگی سے بات ثابت ہوگئی کہ بھارت ہی ان نوجوانوں کوگمراہ کرکے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کررہاہے اوراس سلسلے میں ٹی ٹی پی اور ایسے دوسرے گروہ بھارت کے مکمل طورپرایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔
ان سنگین حالات میں حکومت اورفوج کے لیے فوری طورپر دوکام کرنے نہایت ضروری تھے۔نمبرایک یہ کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کااب ہرصورت مکمل طورپرخاتمہ ناگزیر ہے اور اس کے لیے فوری طورپر متعلقہ علاقوں میں آپریشن کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں۔دوسرے یہ کہ ان دہشت گردوں کے اصل سرغنہ بھارت کی بھی پوری طرح گوشمالی کی جائے کیونکہ جب تک چورکی ماں کونہیں پکڑاجاتا’چوروں اور دہشت گردوں کی پیدائش جاری رہتی ہے۔ جہاں تک آپریشن کاتعلق ہے۔
وہ تو اب شمالی وزیرستان میں شروع بھی ہوچکااوراس میں فوج کوکافی حدتک کامیابی بھی مل رہی ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے تقریباً ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔ پوری قوم کی دعا ہے کہ یہ آپریشن اپنے100فیصد مطلوبہ نتائج کے ساتھ کامیاب ہو’تاہم اس آپریشن میں ایک احتیاط کی بہت زیادہ ضرورت ہے’ جیساکہ امیر جماعةالدعوة پروفیسرحافظ محمدسعیدdنے فرمایا کہ آپریشن میں پوری کوشش کی جائے کہ محب وطن قبائلی کسی طورنشانہ نہ بنیں۔وزیرستان وغیرہ کے قبائل کی 95فیصدسے زائدآبادی محب وطن ہے اور انہی کے آباء واجداد نے قیام پاکستان میں زبردست کردار اداکیا۔
Hafiz Saeed
1948ء میں انہی قبائلیوں کے جہادکی بدولت موجود ہ آزادجموں کشمیر بھارتی تسلّط سے آزادہوا۔امیر جماعة الدعوة نے نہ صرف حکومت اور فوج کو ان قبائلیوں کے ہرممکن تحفظ کی ہدایت کی ہے بلکہ جماعت خود عملی طور پربھی وزیرستان سے ہجرت کرنے والے قبائلیوں کی خدمت کے لیے سرگرم ہے۔ وزیرستان کے قریبی تمام علاقوں میں جماعة الدعوة کے شعبہ خدمت خلق ‘فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF)نے امدادی کیمپ قائم کردئیے ہیں جہاں شدیدگرمی میں نکلے ہوئے مہاجر قبائلیوں کو کھانے پینے ‘رہنے اورعلاج معالجے کی تمام سہولیات دی جارہی ہیں۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ خود فوج نے بھی ایسے کیمپ کئی جگہ قائم کردیے ہیں اور مہاجرین کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جارہی ہے۔ان کی تعداددولاکھ سے اب تک متجاوز ہوچکی ہے۔
تاہم اس سلسلے کاجوسب سے اہم اوربڑاکام کرنے والاہے’ وہ یہ کہ آپریشن کے دوران ملک میں اتحاد ویکجہتی کی فضا کومکمل طور پر برقرار رکھاجائے۔ ہمیں افسوس سے کہناپڑتاہے کہ اس سلسلے میں حکومت اورسیاسی جماعتوں دونوں کی طرف سے کوئی زیادہ ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیا گیا۔ خصوصاً طاہرالقادری کے معاملے میں دونوں اطراف سے بے حکمتی کاانداز اپنایاگیا۔ پولیس طاہرالقادری کے گھرسے صرف چندتجاوزات اوربیریئر ہٹانے کے معمولی مسئلے پر ان کے کارکنان سے الجھ پڑی اورنتیجے میں خواتین سمیت 8جانوں کاضیاع ہوگیا جویقینا بہت ہی افسوسناک ہے۔پولیس نے فائرنگ کس کے حکم اور ایماء پر کی’اس کافیصلہ تواب جوڈیشل کمیشن ہی دے گا لیکن حکومت چاہے۔
اس میں خود کوجتنابھی بے قصور ثابت کرے’یہ کالک اب وہ اپنے چہرے سے مشکل سے ہی دھوسکے گی۔دوسری طرف علامہ طاہرالقادری نے بھی کارکنوں کومسلسل مشتعل ہی کیے رکھاجس کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہی ہوتے گئے۔
ہم علامہ طاہرالقادری سے گزارش کریں گے کہ اگرآپ دل سے آپریشن کے حامی ہیں توآپ کو اس موقع پر قطعاً کوئی ایساماحول پیداکرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی ہنگامہ وانتشار کی کیفیت پیداہو۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کے افسوسناک سانحہ سے قبل ہی وہ باربار کہہ چکے تھے کہ اس دفعہ وہ پاکستان آئیں گے تو وہ شہیدہوجائیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گے۔ گویاان کے تیور پہلے ہی بڑے ماردھاڑ والے تھے ۔اوپر سے موجودہ حکومت کے کارپردازان بھی سیاسی معاملات کو نرمی اورحکمت عملی سے حل کرنے کی مدبرانہ سوچ کم ہی رکھتے ہیں ۔چنانچہ دونوں طرف سے جس پاگل پن کااندازاختیارکیاگیا تواس کانتیجہ وہی نکلناتھاجو اب سامنے آچکاہے۔
تاہم اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے معاملات درست کریں اورایسااندازاختیارکریں جس سے قومی اتحادویکجہتی کونقصان نہ پہنچے کیونکہ اس کا براہ راست اثر آپریشن پرہی پڑے گا۔ طاہرالقادری بھی فوج اورآپریشن کے سچے حامی ہیں تووہ بھی کم ازکم اس موقع پر کسی قسم کی سیاسی ہنگامہ آرائی سے مکمل اجتناب کریں’تب ہی قوم کواس بات کایقین آئے گاکہ وہ آپریشن کی حمایت کے دعوے میں مخلص ہیں۔
آپریشن کے ساتھ ساتھ ابھی قوم کواصل اوربڑامرحلہ سرکرناہے اور وہ دہشت گردوں کے سرغنہ بھارت کے ان ہاتھوں کو کاٹنا ہے جو مسلم نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف گمراہ کرکے انہیں استعمال کررہاہے۔اس حوالے سے حکومت اورفوج ایک لحاظ سے توایک صفحے پرنظرآتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اوروزیردفاع خواجہ آصف نے کراچی ائیر پورٹ حملوں کے بعد فوری طورپر تاجکستان کا دورہ کیا ‘ جہاں انہوں نے تاجک حکومت سے دہشت گردی روکنے کے سلسلے میں باہمی طورپرکئی سمجھوتے کیے۔ یہ سمجھوتے اس لیے کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ تاجکستان کے ہی ایک ائیربیس کو بھارت کئی سالوں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ کے طورپر استعمال کررہاہے۔خواجہ آصف نے اس بھارتی کیمپ کے حوالے سے تاجک حکومت سے انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی۔
تاہم تاجکستان کے بعداب دہشت گردی کے اصل سرغنے بھارت کی خبرلینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ کراچی ائیرپورٹ بلوچستان اور بہت سے دوسرے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے تمام شواہد موجودہونے کے باوجود حکومت بھارت کے خلاف کوئی اقدام تودورکی بات ہے’کوئی لفظ تک بولنے کی روادار نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک چور کی اور دہشتگردوں کی ماں کونہیں پکڑا جائے گا۔
باقی تمام اقدامات کبھی بھی مستقل مطلوبہ نتائج پیدانہیں کرسکیں گے۔بھارت تواپنے ہاں کوئی واقعہ شروع ہوتے ہی کسی قسم کے شواہد کے بغیر ہی پاکستان پرالزام تراشی کاطوفان کھڑا کر دیتا ہے بلکہ فوج تک سرحدوں پرلاکھڑی کرتا ہے لیکن کراچی ائیرپورٹ پر بھارتی اسلحہ اور انجکشنز کے ٹھوس شواہد اور بلوچستان وتاجکستان اور افغانستان میں پاکستان کے خلاف قائم دہشتگردی کے بھارتی کیمپوں کے ثبوتوں کے باوجود جنہیں خود عالمی میڈیا بھی تسلیم کرتا ہے’پاکستان کاخاموش رہنا مزید کسی تباہی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔
ہماری شریف حکومت سے گزارش ہے کہ وہ بھارت خصوصاً مودی سرکارسے کسی تجارتی فائدے کی لاحاصل امید میں ملک کے استحکام کو داؤپرنہ لگائے۔ ہندوبنیا پاکستان کو کبھی فائدہ پہنچنے دے گا’اس کا تصوربھی نہیں کرناچاہئے۔ ایساطویل ماضی سے آج تک نہیں ہواتوآگے کیسے ممکن ہے؟
Army Operation
ہندوبنئے کے بارے میں مشہورہے ”چمڑی جائے’دمڑی نہ جائے” یہ کہاوت کوئی ایک دو دن میں ایسے ہی نہیں بن گئی۔ یہ لوگوں کے صدیوں کے تجربات کا نچوڑہے اوریہ نچوڑ اب اچانک راتوں رات تبدیل ہونے والانہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ملک کاکوئی مزید نقصان کرنے سے پہلے بھارت سے دوستی اور مذاکرات کے باب بند کیے جائیں ۔جب تک بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی بندنہیں کرتا’اہل کشمیرکوان کا کشمیر واپس نہیں کرتا’بابری مسجد کو دوبارہ اس کی جگہ پر تعمیر نہیں کرتااور بھارتی مسلمانوں پرظلم وستم کا خاتمہ نہیں کرتا’اس وقت تک بھارت سے تمام تعلقات منقطع رکھے جائیں۔ ہندوبنیا کبھی پیار اوردوستی سے سیدھا ہونے والا نہیں…یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو میٹھی باتوں سے کبھی نہیں ماننے کے۔