چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

Democracy

Democracy

اندھیرا دکھائی تو چراغ طور کی یاد آتی ہے،اندھیر دکھائی دے تو کس کا ذکر کیا جائے؟۔ اندھیرا اور اندھیر میں صرف ایک ”الف ” کا فرق ہے۔من میں اللہ کا خوف اور اسکی محبت نہ رہے تو باہر اندھیرمچ جاتا ہے۔گویا ”الف”کا نور نہ ہو تو اندر اندھیرا پھیلتا ہے اور باہر…….. اندھیر۔ کیا آپ کو اپنے ارد گرد اندھیر دکھائی نہیں دیتا؟ حادثہ یہ ہے ہمیں اچھی حکومت نہیں ملتی۔سانحہ یہ کہ کبھی اچھی اپوزیشن بھی نہیں ملی۔پوزیشن اور اپوزیشن میں بھی الف ہی کافرق ہے۔پوزیشن والے الف کو مٹا کر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔جبکہ اپوزیشن اپنی پوزیشن کی بحالی کی لئے ہر حربہ آزمانے پر تلی رہتی ہے۔

باقی بچا اس تکون کا اہم ترین ضلع یعنی جمہور،تو اس حالت اس گھاس کی سی ہوتی ہے جو دو طاقت وربھینسوں کی آپسی لڑائی میں خوامخواہ کچلی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسی جمہوریت کا قوم اچارڈالے جو اس کے لئے فیض رساں نہ ہو؟کسی ناخواندہ شخص سے پکے کاغذ پر انگوٹھے لگوکر اسکی جائیداد ہتھیا لی جائے تو دنیا اسے فراڈ کا نام دیتی ہے۔مجرم پکڑا جائے تو کڑی سزا ملتی ہے، معاشرہ الٹ لعن طعن کرتا ہے۔انہیں کچھ کیوں نہیں کہا جاتا جو ہر بار الیکشن کا ناٹک رچاتے اور نتائج چراتے ہیں؟خدا لگتی کہئے گا ، ایسے ڈراموں کے مرکزی کرداروں اور فنانسر کا مقام کیا ہونا چاہئے ،تخت یا تختہ………. ؟؟؟

کاش ہمارے یہاں خود احتسابی کی روش پروان چڑھ پاتی ۔کم از کم مخالفت برائے مخالفت کی غیر صحت مندانہ فضا سے تو جان چھوٹ جاتی ۔ بطور مثال وزیر ”بیانات” کا یہ بیان کافی ہے جس میں وہ 37کروڑ70لاکھ کا رونا روتے پائے گئے کہ کپتان نے یہ رقم جلسوں پراڑا دی ۔کیا عوام یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتی کہ پنجاب حکومت آئین کی کس شق کے تحت میڈیا پر اپنی کارکردگی کی اشتہاری مہم چلارہی ہے ۔انہیں یہ رقم عوام کی فلاح کے لئے خرچ کرنے سے کس نے روکا ہے؟دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھ لینے والی نظریں ،اے کاش اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھ پاتیں۔”عوام کو کب تک بے وقوف بنایا جاتا رہے گا”سے زیادہ اہم یہ سوال ہے ” پاکستانی قوم آخر کب تک بیو قوف بنی رہے گی؟۔قادری صاحب کاوہ جملہ شاید کبھی نہ بھلا پاؤں،جو آنجناب نے اپنے آرام دہ کیبن میں بیٹھ کر فرمایاتھا۔”ظالمو!گھروں سے نکلتے کیوں نہیں ہو؟میںتمہاری ہی تو جنگ لڑ رہا ہوں”۔قوم کو اس بات کا یقین کل آیا تھا نہ آج آیا ہے ۔کوئی پاکستانی سیاست دان عوام کے حقوق کی جنگ لڑتا تو آج ہماری حالت یوں ناگفتہ بہ نہ ہوتی ۔ انتخابی ہوں یا انقلابی،جہادی ہوں یااجتہادی، کوئی اس” یتیم قوم” سے کبھی مخلص نہیں رہا ۔ہمارے حالات پکار پکار کر اسی بات کی گواہی دیتے ہیں کہ” ان تلوں میں تیل نہیں”اور”چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں”؟

اوپر یہ عرض کر چکا کہ ہمیں کبھی اچھی حکومت ملی ہے نہ اپوزیشن۔جمہوری نظام میں اپوزیشن کا بڑا مضبوط کردار ہوا کرتا ہے۔اسے آئندہ کی متوقع اور منتظر حکومت سمجھا جاتا۔اگردونوں اپنا رول بطریقِ احسن سر انجام دیں تو ریاست اور عوام کبھی خستہ حال نہ ہوں۔اپوزیشن کو اپنی باری کا ویٹ کرنا ہوتا ہے ۔لیکن یہاں ہوتا یہ ہے کہ اپوزیشن اپنا ویٹ بڑھانے کے چکر میں رہتی ہے ۔یوں صبر کی بجائے جبر کا راستہ چنا جاتاہے۔عوام کو فائدہ ہو یا نقصان ،اس کی پراہ کون بھلا کس کوہو گی؟۔ آج حکومتی افراد کو اپوزیشن کی ہر بات بری لگتی ہے،جانے کیوں وہ اپنا ماضی بھول جاتے ہیں ۔بیسویں صدی کا آخری عشرہ شاید قوم بھی بھلا بیٹھی ہے ۔بی بی اور بابوکی باہمی کشاکش نے جمہوری ادارے کو جو نقصان پہنچایا ،وہ ملکی تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے۔اے کاش چارٹر آف ڈیموکریسی ان کو اس وقت یادآتا، تب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ،تب اپنی اپنی باری کے لئے صبر کرنا انہیں یاد آتا،تو آج ہم یہ مناظر نہ دیکھ رہے ہوتے کہ پولیس کی مدد سے نہتے عوام پر چڑھائی ہو رہی اور انقلابی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیکر حساب اورطبیعت ایک ساتھ”صاف”کرتے پھر رہے ہیں۔

Opposition

Opposition

اس میں کیا شک ہے کہ ہم خوش فہم بھی بلا کے ہیں اور بد گمان بھی۔سو اکثر تیز رو اور رہبر کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔اور خیر سے مزاج بھی کچھ ”اپوزیشانہ” سا پایا ہے سوجہاں بھی ہلا گلا ہو لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔اب تک کے تجربات ایسے ”ایڈونچرز”میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ڈھونڈ پائے۔

سچ تو یہ ہے ملک میں حقیقی اپوزیشن کا کوئی وجود نہیں۔سکرپٹ ہی کچھ ایسا تھا کہ تین بڑی پارٹیاں کواقتدار کی غلام گردشوں میں” قید ”رکھا جائے۔پیپلز پارٹی توبارہا اعلان کر بھی چکی کہ وہ جمہورت کی بساط الٹنے نہیں دے گی۔باقی رہی کپتان کی پارٹی تو اپنی صوبائی حکومت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔اگر حکومت قربان کی بھی تو محض اپنی ناکامی چھپانے کی غرض سے۔اگر نواز حکومت کپتان کے اعتراضات دور کر دے تو اس کا سب سے بڑ افائدہ بھی اسی کو ہوگا۔”35پنکچرز” والی بات درست ثابت ہو جائے تب بھی وفاقی حکومت کی عددی برتری برقرار رہے گی۔کیا شریف حکومت ایسی جرات دکھائے گی کہ اپنی حکومت کو اخلاقی جوازفراہم کر سکے؟ مولانا صاحب اپنا حصہ کب کا ہتھیا چکے ۔الطاف بھائی پہلے ہی ممنون و احسان مند ہیں۔انکی ساری گھن گرج کمپنی کی مشہوری کے لئے ہے۔پنڈی کے شیخ صرف میڈیا پر سولو پرفارمنس دے سکتے ہیں۔چوہدری بردران تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔لے دے کے کینیڈا کے شیخ بچتے ہیں تو وہ اپنی متضاد شخصیت کے سبب قوم کا اعتماد کھو چکے ہیں۔قوم پچھلے زخم کوابھی کہاں بھول پائی ہے۔

سوائے ہلے گلے کے وہ کچھ بھی نہ کر پائیں گے اور راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا ۔سو نواز حکومت کو بظاہرکسی سے کوئی خطرہ نہیں۔”ضربِ عضب ”کی” خاموش تائید” کے بعدفوج بھی ان سے مطمئن ہی ہے۔بڑبولے شیخ کے بقول خطرہ اگر ہے بھی تو اپنے بھاری مینڈٹ سے،یا پھر غلط فیصلوں سے۔جس کا عملی مظاہرہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قوم دیکھ ہی چکی ہے۔ آخری آمر کے بعد، جمہوری پاکستان میں سانس لیتے ہمیںچھ سال ہو چلے ہیں۔اس عرصہ میں قوم ان فیوض و برکات سے بہر طور” محفوظ” رہی ہے جس کاراگ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں روز الاپتی رہی ہے ۔یہ نام نہاد جمہویت عوام کی اکثریت کو زندگی کی بنیادی ضروریا ت تک فراہم نہیں کر پائی ۔دہشت گردی سے انجری بحران تک ، مہنگائی سے کرپشن تک اور پی آئی اے سے سٹیل مل تک کچھ بھی تو نہیں سنبھلا ۔نہ کوئی تسلی بخش پیش رفت دکھائی دی ہے۔اب گزشتہ ایک سال سے ہم بیک وقت تجربے اور تبدیلی کی زد میں ہیں۔قوم کے خواب پھر بھی ادھورے ہیںاور نگاہیں کچھ اچھا دیکھنے کی منتظر۔ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر ملک دشمن عناصر کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔

ہم بجا طور پر حالتِ جنگ میں ہیں۔فوج کو اس وقت قوم اور سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت درکار ہے۔یقینا وفاقی و صوبائی حکومتیں کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتیں ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ملک کو ایک بار اندھیروں میں دھکیل دیاجائے۔یہ وقت فساد کا نہیں ، اتحاد،یگانگت اور ملی یک جہتی ہے۔تاریکی پہلے ہی اس قدر ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔اس قوم کی بھلائی اور اپنے دیس کی بہتری کے لئے آگ لگانے کی نہیں چراغ جلانے کی ضرورت ہے۔ماناہمیںاحتساب کی ضرورت ہے اور انقلاب کی بھی ۔لیکن یہ انقلاب خونی نہیں ہونا چاہئے ۔ایک زرعی ملک کو تو ”سبز انقلاب ”ہی سوٹ کرتا ہے ۔اسی سے ہم اپنے سبز پاسپورٹ کاوقار بڑھاسکتے ہیں۔اس کے لئے سیاسی جماعتیں صلح نہیں تو ”سیز فائر ” ہی کر لیں۔چودہ اگست کا لانگ مارچ حکومت کے خلاف نہیں ”اندھیروں” کے خلاف ہونا چاہئے ۔خان صاحب ایک اور جمہوری عہد تمام ہونے دیں اور ملک کی تقدیر بدل کر قوم کو دکھائیں کہ آپ سب قوم سے اس کا وعدہ ”کر بیٹھے ہیں۔ آئیں ”چراغ طور” جلا کر لانگ مارچ کریں ۔ ہو سکتا اس سے ہمارے اردگرد پھیلا اندھیرا بھی دور ہو جائے اور اندھیر بھی۔

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر : صفدر علی حیدری
(sahydri_5@yahoo.com)