دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صفِ اول کے ملک جاپان جہاں دن بہ دن آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عمر رسیدہ آبادی میں اضافے کا رجحان ہے ۔جاپان کے بارے میں عالمی تصور یہ ہے کہ یہاں بچوں کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے اور بچو ں کو بہت لاڈ پیار سے پالا جاتا ہے اور انکی بہترین پرورش کی جاتی ہے اور انکی ہر بنیادی خواہشات کو پورا کیا جاتا ہے کیونکہ جاپان کے ایک گھرانے میں ایک یا دو بچے ہوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ خود بخود ہی لاڈلے ہو جاتے ہیں۔ یہ تصور بالکل ٹھیک ہے مگر اسی ملک میں ایسے بچے بھی ہیں جن کے والدین انھیں جان بوجھ کر تنہا چھوڑ کر گھر سے نکل جاتے ہیں اور ننھے معصوم بچے بھوک کی شدت اور فاقہ زدگی سے جان دے دیتے ہیں۔
جاپان میں حدِ رجہ ترقی ہونے کی وجہ سے لوگوں میں شادی کا رحجان بھی ختم ہو جاتا رہا ہے اور عورت و مرد چالیس چالیس سال کی عمروں تک شادی نہیں کرتے اور ظاہر ہے اس عمر میں شادی کرنے والا جوڑے جو اپنی شادی کو جھمیلا سمجھتے ہوں وہ بچوں کی افزائش یا انکی پرورش پر کیا توجہ دیں گے۔
جاپان میں کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام نہیں ہے اور ایک گھر میں ایک ہی خاندان رہائش پزیر ہوتا ہے میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں عموماََ شوہر گھر چھوڑ جاتا ہے اور بچوں کو سنبھالنا ماں کی ذمہ داری ہو جاتی ہے بسا اوقات اسکے برعکس بھی ہوتا ہے کہ بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی اوربچے شوہر کی ذمہ داری ہو گئی ، اور بعض اوقات دونوں میاں بیوی میں علیحدگی کے وقت بچوں کو گھر میں لاوارث چھوڑ جاتے ہیں ،یہاں گھروں میں خالہ، ماموں ، چچا ، پھوپھی ، نانا ، نانی یا دادا دادی کا سایہ نہیں ہوتا جسکی وجہ سے ایسے بچوں کی مناسب دیکھ بھال ہو سکے بلکہ یہاں کے بچے ایسے رشتوں سے بھی نا بلد ہی ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں جاپان کے روزنامہ میں شائع ہونے والی اس خبر نے مجھے چونکا دیا کہ گزشتہ تین سالوں میں چھوٹے اور معصوم بچے جنھیں انکے والدین چھوڑ کر کہیں چلے گئے انکی تعداد 483 تھی جاپان جیسے ملک میں صرف تین سالوں میں اتنی بڑی تعداد کی بہت اہمیت ہے ، رپورٹ کے مطابق ان میں ایسے بچے بھی شامل تھے جنھیں فاقہ زدگی اور خطر ناک حالت میں پاکر ادارۂ تحفظِ اطفال نے اپنی تحویل میں لیا۔
Japan Child
گزشتہ ماہ کھاناگاوا پریفیکچر کے آتسوگی شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک چھوٹے بچے کی لاش دریافت ہوئی، اس قسم کے کئی واقعات پے در پے رونما ہورہے ہیں۔اخباری سروے کے مطابق اس طرح بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرے کے پیشِ نظر ابھی تک حکومتِ جاپان یا شہری حکومتوں نے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے ہیں۔اس قسم کے واقعات میں اضافے کے روک تھام کے لئے مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔سروے کی رپورٹ کے مطابق بچوں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر والدین کا لاپتہ ہوجانا، بچوں کو کئی کئی گھنٹوں تک گھر میں اکیلا چھوڑ دینا اور ان میں نو مولود بچوں کی تعدادبھی شامل ہے جنھیں نوخیز غیر شادی شدہ مائیں زچگی میں ہی چھوڑ دیتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد ٢٠١١ئ ،٢٠١٢ئ اور ٢٠١٣ئ میں بالترتیب 113,199,153 تھی۔
ایسے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد اوساکا میں 120ٹوکیو میں 102سائتاما پریفیکچر میں48اورکھاناگاوا پریفیکچر میں40تھی۔کُوماموتو پریفیکچر میں نصب کئے گئے نومولود بچوں کا بکس جس میں26نو مولود بچے پائے گئے ، واضح رہے کہ کئی سال قبل اس قسم کے واقعات روکنے کے لئے حکومتِ جاپان نے بعض ہسپتالوں کے مخصوص مقام پر AKAN CHAN POST BOX کئے تھے جس کا مطلب نو مولود بچوں کا پوسٹ بکس ہے اس بکس میں چھوٹا سا خوبصورت بستر لگایا ہوتا ہے اور کچھ کھلونے رکھے ہوتے ہیں ، ان بکس میں ماں یا باپ غیر مطلوبہ بچوں کو رات کے اندھیرے میں ڈال جاتے ہیں جنھیں مقامی حکومت اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے انکی پرورش کرتی ہے۔
مذکورہ بالا تعداد میں سب سے زیادہ تعداد ان بچوں کی تھی جنکی عمریں تین سال سے کم تھیں، دوسرے نمبر پر وہ بچے تھے جنکی عمریں تین سال سے بارہ سال، تیسرے نمبر پر بارہ سال سے پندرہ سال اور چوتھے نمبر پر پندرہ سال سے اٹھارہ سال تک تھی۔رپورٹ کے مطابق ایسے کئی بچے بھی تھے جنھیں فوری طبی امداد بہم پہنچاکر بچا لیا گیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق اس قسم کے واقعات کی وجوہات مالی و معاشی پریشانی ،ماں یا باپ کا رات کو کام کرنا، بیروزگاری اور والدین کے مابین لڑائی جھگڑا اور طلاق وغیرہ ہے۔
Nasir Nakagawa
تحریر : ناصر ناکاگاوا، جاپان nasir.nakagawa@gmail.com