میرے پیارے دوست صفدر علیٰ حیدری نے ایس ایم ایس کہ انقلاب، انتخاب اور احتساب میں سے آپ کس کو ووٹ دیں گے۔؟میں نے لمحہ بھر کے لئے سوچا اور جواب دیا،احتساب ،کہنے لگے وہ تو قیامت کے روز ہوگا۔ان کی بات بھی ٹھیک تھی،لیکن میں کہتا ہوں قیامت سے پہلے بھی رب تعالیٰ چاہے تو احتساب کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔اللہ تعالی ٰ جسے چاہے زمانے میں نشان عبرت بناسکتے ہیں۔ صفدر بھائی کی سوچ کچھ اور میرے کچھ اور ہے۔
پاکستانی قوم پاکستان معرض وجود سے لیکر اب تک انتخاب ہی کرتی آرہی ہے۔مگر پھوٹی قسمت عوام کی ہر انتخاب میں خامیاں نکل آتی ہیں اور جن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔اقتدار کا تاج سر پر سجتے ہی بدل جاتے ہیں۔تو کون میں کون،والی بات ہے۔پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ان کے سبھی وعدے،قسمیں ،قول و قرار بدل جاتے ہیں۔وہ سیاستدان ہی کیا جو اپنے وعدے پورے کر دکھائے۔جب ان کو ووٹ چاہیے ہوتے ہیں تب ان کی گاڑیاں،کچی سڑکوں سے ہوتی ہوئی غریبوں کی بستیوں کا رُ خ کرتی ہیں۔
جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔غریب کی بیٹی کی شادی میں(چاہے منہ پر رومال رکھ کر )جانا پڑے شریک ضرور ہوتے ہیں۔کئی تو اتنے سخی ہوتے ہیں چند غریبوں کی بیٹیوں کی شادیوں پر اٹھنے والا خرچ اپنی جیب سے دیتے ہیں ۔شاید سخاوت کی عمدہ مثال یہی ہے۔سیاستدانوں کے نزدیک ،اقتدار میں آنے کے لئے ووٹ جو حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
میٹھی،شیریں باتوں سے ورغلا کر ووٹ لے لیے،اقتدار کی کرسی مل گئی تب ان کی گاڑیاں بھولے سے بھی غریبوں کی بستیوں کیطرف نہیں جاتی۔تب تو شاندار ہوٹلز،شراب خانے،نائٹ کلبوں کا رُ خ کرتی نظر آتی ہیں۔کئی شیربہادر تو قومی خزانے سے بیرون ممالک وزٹ کو نکل جاتے ہیں۔ان کے کتوں کو فلو،زکام ہو جائے تو علاج کے لئے بیرون ملک لے جایا جاتا ہے۔یہاں غریب کینسر سے مر جائے،کوئی پرواہ نہیں۔عوام کا کام ہی مرنا ہے جو ستاسٹھ سال سے مرتی آرہی ہے۔
عوام کا ہی قصور ہے جو انتخاب درست نہیں کرسکتی یا پھر عمران خان کی بات مان لیتے ہیں کہ ہر انتخاب میں دھندلی ہوتی ہے۔ن لیگ ہو پیپلز پارٹی باری باری اقتدار کے مزے لیتی نظر آتی ہیں۔جس نے زیادہ دھندلی کی،وہ اقتدار کی کرسی پر بُرجمان ہوا۔اور الارم الاپنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا خون دے کر قوم کی خدمت کرنے اقتدار میں آئے ہیں۔
کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے کہ ہر بندہ اس نشہ میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے جس غریب عام آدمی نے ان کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا ہو تا اسے ان سے کام پڑ جائے تو پہچاننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔بس اتنی رقم دے دو کام ہو جائے گا۔بندہ ان سے پوچھا!اگر اتنے پیسے ان کے پاس ہوتے تو آپ کے پاس کیو نکر آتے۔
انتخاب کر کر کے تھک سے گئے ہیں۔اب تو ہڈیاں بھی جواب دینے لگی ہیں۔کوئی چہرہ واضح،نظرنہیں آتا۔سبھی دھندلے دھندلے سے ہیں۔سبھی زبان کے کچے،قول کے جھوٹے ہیں۔یہ بھی سچ ہے جھوٹ نہ بولیں تو کوئی بھی کاروبار چمکتا نہیں۔مہربانی فرمائیے اب کی بار انتخاب کرنے سے رہے۔کوئی اور کام ہی کروا لیں،ووٹ مت مانگیں۔
انقلاب کی بات کریں تو اب انقلاب صرف اور صرف نعروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔سیاست چمکانے کے لئے،ڈالڑوں سے دامن بھرنے کے لئے انقلاب کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔پاکستان کی عمر ستاسٹھ سال کو بانہیں ڈال رہی ہے۔کتنے انقلاب آئے؟اب تو عوام کو سنبھل جانا چاہیے۔انقلاب ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔جب سے لالچ پیدا ہوئی ہے سچائی اپنا بوریا بستر گول کر کے رخصت ہو گئی ہے۔انقلاب لانے والے عوام کو سڑکوں پر جمع کرکے ،جلسے جلوس ،ریلیاں نکال کرکے اُدھر دیکھا دیتے ہیں۔ان کو خوش کرکے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور چھ ماہ میں بیرون ملک سیاسی پناہ میں چلے جاتے ہیں۔
Altaf Hussain
الطاف حسین، مولانا طاہر القادری اور ان جیسے بہت سے اور ہیں جو لوٹ مار تو یہاں کرتے ہیں اور مزے وہاں اڑاتے ہیں،کچھ عرصہ پہلے لانگ مارچ ڈرامہ ہوا تھا اور اختتام مذکرات کی میز پر ہوا۔مولانا طاہرالقادری کو راضی کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کینڈا میں مقیم ہوگئے۔اب جب پاک فوج ضرب عضب آپریشن میں مصروف عمل ہے تو ان کوپھر خارش ہورہی ہے ۔ایک دفعہ پھر چوہدری بردران کے ساتھ مل کر انقلاب ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔دوسری طرف عمران خان دھندلی ڈرامہ رچائے گلی گلی،محلے محلے گھوم رہے ہیں۔بس ان کو اقتدار کی کرسی کا نشہ ہے اور عوام خواہ مخواہ سڑکوں پر دم توڑ جاتی ہے۔عوام تو قربانیاں ہی دیتی آئی ہے۔اور دیتی رہی گی۔
میں تو رب تعالیٰ سے بدست دعا ہوں ،آئے باری تعالیٰ ہمارے سیاستدانوںکو کہیں دور بہت دور جا بسا۔یہاں سے ان کی کوئی خبر تک نہ آئے۔یا پھر احتساب کا کہٹرا کھول دے اور ان کو کہٹرے میں لا کھڑا کر تاکہ نئے آنے والے ان سے عبرت لے سکیں۔اس ملک پاکستان کو ان کے سائے سے محفوظ فرما۔اس عوام پر رحم کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیساحکمران عطا فرما تاکہ اس ملک میں امن اور سلامتی قائم رہے۔آمین ثم آمین!