ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمد

Ramadan

Ramadan

ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمدآمد ہے۔ ہر چہار جانب خوشیوں کا ماحول ہے۔ ہر طرف فرحت و شادمانی کے نغمے گائے جا رہے ہیں۔ ہوائیں مستی میں جھوم رہی ہیں۔ فضائیں ماحول میں خوشبو بکھیر رہی ہیں۔ ابرکرم اور رحمت و مغفرت کی گھٹائیں برسنے کو تیار ہیں۔ رزق میں فراوانی اور وسعت ملنے والی ہے۔کیوں نہ ہو یہ مہینہ تو تمام مہینوں سے افضل و خیر وبرکت والا ہے۔جس کا ایک ایک لمحہ اور ہر ہر ساعت نہایت ہی متبرک ہے۔ یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں۔

مثلاً زبور حضرت داؤدعلیہ السلام پر۔ توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر۔ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو صحیفے اسی ماہ میں عطا کئے گئے اور آخری کتاب ہدایت ( قرآن پاک ) کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسیلم پر اسی ماہ میں نازل فرمایا۔ یعنی لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر پورا کا پورا اسی ماہ مبارک کی لیلتہ القدر ( شب قدر ) میں اتار ا اور وہاں سے پھر 23سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا موقع محل کے حساب سے نازل ہوا۔ یہی وہ کتاب ہے جو تاقیامت پوری انسانیت کے لئے سراپا ذریعہ ہدایت ہے اور اپنے وقت نزول سے لے کر آج تک اور رہتی دنیا تک اس میں ردو بدل کاکوئی امکان نہیں ہے۔

حتیٰ کہ ایک زبر۔ زیر اور نقطہ کی ذمہ داری خود رب العالمین نے لی ہے۔ اس کا خود اعلان ہے کہ ” بے شک قرآن کو ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ” بہر حال رمضان کے ساتھ قرآن مجید کا خاص لگاؤ ہے۔ جب ہی اس کے نزول کے لئے اس مہینہ کا انتخاب کیا گیا۔ اسی بات کو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا:” ترجمہ ”۔ رمضان وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لئے ذریعہ ہدایت ہے” الغرض اس ماہ کی عظمت و فضیلت کے لئے یہی کیاکم ہے کہ قرآن مقدس کا اس ماہ میں نزول ہوا۔ جس نے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کیا۔

سسکتی ہوئی انسانیت کو ہدایت کی راہ دکھائی۔ یہ ایک ایسا کا مل ومکمل دستورحیات ہے جس کی روشنی میں گم کردہ راہ انسانیت کو رہنمائی ملی اور ایک طویل تاریکی کے بعد انسانیت کی صبح سعادت طلوع ہوئی۔ چمنستان انسانیت میں بہار آئی ‘ خزاں رسیدہ دل ایک بار پھر سے کھل اٹھے۔ صحابی رسول حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ۖنے فرمایا کہ منبرکے قریب ہو جاؤ۔ ہم لوگ منبرکے قریب حاضر ہو گئے۔ جب آپ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا فرمایا آمین۔ پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا۔ جب خطبہ سے فارغ ہو کر آپ منبر سے نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا۔

اللہ کے رسول آج ہم نے منبر پر چڑھتے ہوئے آپ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی اور یہ کہ آپ نے تین مرتبہ آمین آمین کہا۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے تھے۔ جب منبر کے پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوںنے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا۔ پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔ میں نے اس پر کہا آمین ( یعنی ایسا ہی ہو) پھر جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک کیا جا رہا ہو اور وہ آپ پر درودنہ بھیجے۔

میں نے کہا آمین۔ جب میں نے تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا۔ ہلاک ہو جائے وہ شخص جو اپنے ما ں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور وہ اس کی جنت میں داخل نہ کرائیں۔ میںنے کہا آمین۔ آپ ۖ نے تین چیزیں بیان کی ہیں جن میں پہلی بات کا تعلق رمضان المبارک سے ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا مہینہ پائے اور صحیح ڈھنگ سے روز ہ رکھ کر تراویح وغیرہ پڑھ کر دریائے رحمت کے جوش وابال سے سیراب نہ ہو۔

مغفرت و نجات کے ابلتے ہوئے چشموں سے اپنے گناہوں کی غلاظت کو نہ دھوئے تو واقعی ایسے شخص سے بڑھ کر کوئی بدنصیب نہیں ہو سکتا اور ایسے گم کردہ منزل اور مقصد حیات سے غافل کو ہلاک ہو ہی جانا چاہئے اور پھر جس بد نصیب کے لئے افضل الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام بد دعاکر رہے ہوں او راس پر خلاصہ کائنات حضرت محمدۖ آمین فرمارہے ہوں پھر ایسے شخص کی ہلاکت و تباہی میں کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔بہر حال اس ماہ میں رب کریم کی رحمت اس قدر جوش میں آتی ہے۔

اپنے محبوب پیغمبرۖ کے ذریعہ اپنی رحمت کو اسطرح بیان کرایا کہ رمضان میں جہنم کے مستحق لوگوں کو پورے ماہ آزاد کردیا جاتا ہے۔ آپ ۖنے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جنت کو سنوار و کہ کہیں کوئی میرا بندہ آجائے۔ نیز حضور ۖکا ارشاد ہے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرنے لگے کہ سارا سال ہی رمضان ہو جائے۔آپ ۖنے فرمایا کہ اس ماہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ دیا جاتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی پاک ارشاد ہے کہ اللہ بزرگ و برتر رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم دیتے ہیں کہ وہ تین مرتبہ آواز دے کر کہے ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کر وں۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں۔ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اسکی مغفرت کروں۔ نیز آپ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک روزہ دار جو افطار کے وقت دعا کرتا ہے۔ دوسرا انصاف پرور بادشاہ اور تیسرا مظلوم یعنی جس پر ظلم کیا جائے۔ (یہ ظلم چاہے جس طرح کا بھی ہو) آج ظلم کا دور دورہ ہے۔ غریبوں کو ستانا۔ کمزروں کو دبانا اور بے یارو مددگار اور بے سہاروں کو اجاڑنا۔ اپنے ماتحتوں کو ستانا۔

Life

Life

آج ذیادہ ترلوگوں کا شیوہ زندگی بنا ہوا ہے۔ بہت سے طاقتور ،مالدار، دولت و ثروت کے نشے میں چور طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ مظلوموں کی آہوں کا شکار ہو جائیں۔ اسلئے امت محمدۖ کے لئے خوشی کا مقام ہے کہ رمضان المبارک پوری خیروبرکت کے ساتھ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہورہاہے۔ ہمیں اپنی آغوش رحمت میں لینے والا ہے۔ اب ہمارے اوپر ہے کہ ہم اس کا کیسے استقبال کرتے ہیں۔ کتنا احترام کرتے ہیں او راس کے تقاضوں کو کتنا پورا کرتے ہیں۔

آیا گرمی اور دھوپ کا بہانہ بنا کر رب ذوالجلال کے احکام کی دھجیا ں اڑاتے ہیں۔ یا اپنے رب کی رضا کی خاطر دنیا کی ہر تکلیف کو ہیچ سمجھتے ہوئے اپنے معبود حقیقی کے سامنے سرنیاز تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ رمضان ہر سال آئے گا۔ اور چلا جائے گا۔ لیکن اگلے سال تک ہم ہوں گے یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ اس لئے ہم اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکریہ ادا کر یں کم ہے کہ اس نے ہمیں یہ بابرکت مہینہ نصیب کیا اور روزہ جیسی عظیم اور بیش بہا نعمت عطا فرمائی جو دنیا وی اعتبار سے بھی مفید ہے اور آخرت میں تو باعث نجات ہے ہی۔

روزہ انسان کی صحت و تندروستی قائم و دائم رکھنے کے لئے ایک مفید عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم مفکر و دانشور بھی اسلامی روزوں کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ یہ نسخہ کیمیابندوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خالق کائنات کا بنایا ہوا ہے او راس سے زیادہ کس کو معلوم ہوگا کہ میرے بندوں کے لئے کون سا عمل مفید ہوگا۔ روزے کے بارے میں ایک عیسائی دانشور ڈاکٹر رچرڈکا کہنا ہے کہ ” جس شخص کو تزکیہ نفس کی ضرورت ہواسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ رکھا کر ے۔ اسی طرح ڈاکٹر ہیزی ایڈورڈلکھتے ہیں ” روزہ دل میں صبرو سکون اور اطمینان پیدا کرتا ہے۔

اس سے قوت برادشت اور سختیاںسہنے کی عادت پیدا ہوتی ہے”۔ گویا روزہ روحانیت کی غذا تو ہے ہی۔امراض جسمانی کے لئے بھی مفید ہے۔آئیے: ہم عہد کریں کہ یہ رمضان ہم رمضان کے طریقے سے گزاریں گے۔ صرف پیٹ کا ہی روزہ نہیں رکھیں گے بلکہ ہاتھ ” پیر” زبان” کان” ناک” دل و دماغ سب کا روزہ رکھیں گے۔ اپنے تمام اعضا کو اپنے قابو میں رکھیں گے۔ خاص طور پر سے اپنی زبان کو تمام برائیوں سے دور رکھتے ہوئے ہمہ وقت رب ذوالجلال کی یاد میں ‘ قرآ ن کریم کی تلاوت میں اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجیںگے۔اس رمضان کو گویا ہم اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر ایک ایک لمحہ کی قدر کریں گے۔

ہم یہ عہد کریں کہ رمضان کاایک بھی روزہ ہم سے کسی طرح چھوٹ نہ جائے۔ اس لئے کہ قصد اً ( یعنی بغیر کسی شرعی عذر) کے ایک روزہ بھی چھوڑکر اگر کوئی پوری زندگی روزہ رکھے تب بھی اس ایک روزہ کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اندازہ کریں کہ بغیر عذر روزہ نہ رکھنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ اسی طرح تراویح کا پورا اہتمام کریں گے جو کہ نہایت ہی ضروری ہے۔آئیے: ہم اپنے مقام کو سمجھیں۔ رمضان کا کھلے دل سے استقبال کریں۔ اس کے تقاضوں کو پورا کریں۔ عبادت کا اہتمام کریں اور اللہ کے متقی و پرہیزگار بندوں میں اپنے کوشامل کریں۔ آمین

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر:ایم اے تبسم (لاہور)
Email: matabassum81@gmail.com,0300-4709102