جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے ہچکچاتے رہے جس سے نقصان ہوا، اطہرعباس

Athar Abbas

Athar Abbas

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاک فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا ہے کہ فوج نے 3 سال قبل شمالی وزیرستان میں آپریشن کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا تاہم جنرل اشفاق پرویز کیانی آپریشن سے ہچکچاتے رہے جس کے باعث ملک و قوم کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اطہر عباس نے کہا کہ عسکری قیادت نے 2010 میں شمالی وزیرستان آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال تک اس آپریشن کی تیاری کی گئی۔

لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن سے متعلق جنرل کیانی کا خیال تھا کہ اس فیصلے کو ان کے ذاتی فیصلے کے طور پر دیکھا جائے گا جس کے باعث وہ آپریشن نہ ہو سکا اور ہم نے بہت وقت ضائع کر کے نقصان اٹھایا جس کی بھاری قیمت ملک، عوام اور فوج کو ادا کرنا پڑی۔

اطہر عباس نے کہا کہ آپریشن میں تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہوچکے ہیں،ان کی تعداد بڑھ گئی، وسائل میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے رابطے بھی بڑھ چکے ہیں جس سے پہلے کی نسبت معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا۔

کہ وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا کیونکہ وزیرستان میں موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ علاقے میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن پر فوج کی اعلیٰ قیادت میں دو رائے بھی پائی جاتی تھیں جن میں ایک آپریشن کے حق میں جبکہ دوسرا گروہ کارروائی کو ملتوی کرنے کے حق میں تھا۔

پاک فوج کے سابق ترجمان نے کہا کہ وزیرستان میں فوجی کارروائی کے متاثرین کا مسئلہ بہت اہم تھا کیونکہ فوجی قیادت کی یہ رائے تھی کہ حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت نے 2009 میں سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے پر فوج کے لئے مشکلات پیدا کیں اور وہاں سے ہر روز ایسے بیانات آتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکا شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے فوج پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

تاہم ہم امریکیوں کو بتاتے رہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ یہ ہمارے لیے فیصلہ کرنے میں مزید مشکلات کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے تو اس سے یہی تاثر ملتا کہ یہ کارروائی امریکا کی خواہش پر کی جارہی ہے۔