مئی ٢٠١٣ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی اور حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ ویسے تو برسرِ اقتدار حلقہ جتنا بھی اچھا کام کر لے مخالفین اسے تنقیدی نظر سے ہی دیکھتے ہیں، اور ایسے میں اگر کوئی ایشو مخالفین کو مل جائے تو انہیں جیسے تیل میں آگ لگانے والی شئے مل جاتی ہے۔ پھر بھی چند حقائق ہیں جو شاید حکمرانوں کو پسند نہ آئے لیکن قلم کی نوک سے کاغذ پر یہ تمام الفاظ جلوہ گر ہونے کو بیتاب ہیں۔ ایک بات حقیقت ہے کہ چاہے جتنی اکثریت حکومت کو مل جائے پھر بھی حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلے تاکہ کسی طرف سے انگلی اٹھانے کا موقع میسر نہ آ سکے۔
مگر ہمارے یہاں یہ دستور رہا ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں سیٹیں کم ملیں تو حکومت بنانے کے لئے چھوٹے سیاسی جماعتوں کے مرکز پر چکر پہ چکر لگایا جاتا ہے اور ان کی ہر بات ماننے کو تیار بھی ہو جایا جاتا ہے۔ لیکن اگر اکثریت حاصل ہو جائے تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ اچھی روایت نہیں ہے ، اور اس لئے بھی نہیں ہے کہ تمام جماعتوں کے اپنے اپنے منشور ہوتے ہیں، جس کو بنیاد بنا کر وہ سیاست کرتے ہیں اور عوام الناس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ آج حکمران کو اکثریت تو حاصل ہے مگر کوئی بھی جماعت اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔
حکمراں جماعت نے سب سے دشمنی مول لے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ سیاست میں اکیلے ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق)، پی اے ٹی، پی ٹی آئی اور دیگر چھوٹی جماعتیں بھی حکومت سے ناراض ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر حکمران اپنی مدت خوش اسلوبی سے پورا کرنا چاہتے ہیں تو تمام جماعتوں کو اپنے فیصلوں میں شامل کریں، ان سے اتحاد کریں، یعنی کہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیں، ملک کے لئے از حد ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر جمع ہو جائیں، اور جو حکومت میں ہے اسے چاہیئے کہ تمام جماعتوں کا خیال رکھے، وگرنہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کہیں ٹرین مارچ، کہیں انقلاب اور کہیں اپنی اپنی سیاست ہو رہی ہے، اور حکومت تخت پر بالکل تنہا ہو گئی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ: اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
حکمرانوں کا عوام کے لئے کچھ نہ کرنا یا صرف بیانات اور کاغذی ہیر پھیر تک ہی محدود رہنا کسی خطرناک اور موذی مرض سے کم نہیں۔ آج غریبی بے روزگاری، بھوک، افلاس اور مہنگائی سے تڑپتے ہوئے عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے، وہ آہستہ آہستہ چکنا چور ہو رہے ہیں۔ جس مہنگائی، بے روزگاری کو ختم کرنے کا مضبوط وعدہ کرکے حکمران برسرِ اقتدار آئے تھے وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلسل بڑھ ہی رہی ہے۔ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہونا جیسے عوام کی گھٹی میں شامل ہو چکا ہے۔ آج پھر آلو اسّی روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے، چاول، دال ، گھی، چینی ، گوشت، سبزی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
Public
عوام کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں دن کے اُجالے میں ہی ٹھگ لیا گیا ہے۔ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ اس قدر ہو چکا ہے کہ عوام میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ڈیزل، پیٹرول اور گھریلو گیس پہلے ہی مہنگے مل رہے ہیں اور اب مزید مہنگا ہونے کی نوید وزراء سنارہے ہیں۔ سرکاری سبسٹڈی میں کمی کرنے کی بات بھی چل رہی ہے، ایسے میں خواہ غریب اور عام آدمی کی کمر مہنگائی کے بوجھ سے ٹوٹ ہی کیوں نہ جائے۔ اس بار بھی بجٹ میں متوسط طبقہ کے ملازمین کے لئے مہنگائی کے تناسب سے کچھ بھی نہیں کیا گیا، محض دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مہنگائی سو گنا بڑھا ہوا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے عوام میں جو مصنوعی امیدیں جگائی تھیں وہ چراغ اب بجھتا ہوا لگ رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ایک بار پھر روپے کی قدر کمزور ہونے کی خبریں ہیں۔
اقتدار اعلیٰ کے لیڈران کے جو نعرے اور دعوے تھے ان میں کہیں سے بھی تکمیل ایفائے عہد کی خوشبو نہیں آ رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کو کوئی خاص راحت و سکون نہیں ملے گی، صرف پروجیکٹ کا افتتاح ہی ہو رہا ہے اور تکمیل کے لئے چار سال کا وقت لے لیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تکمیل کا وقت آئے گا تو حکمرانوں کا بھی وقت پورا ہو رہا ہوگا، پھر نئے الیکشن ، پھر نئے وعدے اور یہ سلسلہ یونہی ساٹھ سالوں کی طرح پھر سے رواں دواں رہے گا۔
انتخابات میں جتنے عوامی مفادات اور مراعات کی باتیں کی گئی تھیں، وعدے کئے گئے تھے، سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ تو پورے ہونے سے رہے ، غریب لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے مزدوری کرتے ہیں مگر اب ان کے حوصلے اور ہمت بھی پست ہونے لگے ہیں، کیونکہ ملکی حالات ایسے ہیں کہ غریب کو مزدوری کرکے بھی اجرت وقت پر نہیں مل پا رہا ہے، اور نوجوانوں کی کیا بات کی جائے، بے چارے غریب ماں باپ کے چشم و چراغ پڑھ لکھ کر ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے نوکری کے چکر میں در بدر بھٹک رہے ہیں۔
مگر نوکری ہے کہ ملتی ہی نہیں۔ اگر کہیں نوکری دستیاب بھی ہے تو سفارشی لوگوں کے لئے، یا پھر اتنا تجربہ مانگ لیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان جو ابھی ابھی پڑھ لکھ کر فارغ ہوا ہے اور نوکری کے لئے دفتروں، کارخانوں کے چکر لگا رہا ہے ، اسے نوکری ملے گی تو اس کے پاس تجربہ دستیاب ہوگا ، کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے تجربہ لے کر تو نہیں آ سکتا۔پتا نہیں یہ کیسا دستور ملک میں رائج ہے کہ تجربہ لائو گے تو نوکری ملے گی۔ بھائی آپ نوکری دو گے تو تجربہ بھی ملے گا۔
قیادت کا ایک اور اہم اور بنیادی وصف بھلے ہی بصیرت یا ویژن ہو لیکن یہ ویژن مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کا چین و سکون رخصت ہو چکا ہے۔ بصیرت کا براہِ راست تعلق مثبت سوچ اور مثبت بات کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ بصیرت میں اپنی مثبت سوچ اور بات کو تمام جماعتوں تک پہنچا کر انہیں اعتماد میں لے کر فیصلے کئے جائیں تب ہی کامیابی کا سورج طلوع ہو سکتا ہے۔
انصاف کسی بھی معاشرہ کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے آئے ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا خواہ وہ بادشاہ تھے یا جمہوری حکمران۔ آج دنیا کے تمام ترقیوں کی بنیاد معاشی، معاشرتی، اور سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے لہٰذا ہمارے لیڈروں سے بھی انصاف کی فراہمی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے، مگر یہاں عدل و انصاف بھی وقت پر نہیں ملتا۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ حکمراں جماعت بلا شق و شبہ اکثریت میں ہیں مگر ملکی حالات اور عوام کی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسا فارمولا لائیں کہ جس کے ذریعے ملک کی تمام جماعتیں ایک پیج پر آ جائیں۔ تاکہ ہم ایک قوت بن کر سامنے آ سکیں، الگ الگ انگلیاں جب تک رہتی ہیں ان میں کوئی طاقت نہیں ہوتی مگر یہی انگلیاں جب مل کر مٹھی یا مکا بن جائیں تو نہ اندرون اور نہ بیرون دنیا ہمیں آنکھ دکھا پائیں گی۔اور نہ ہماری خوشیوں پر کوئی آنچ آئے گا۔ خدا ئے بزرگ و برتر ہمارے حکمرانوں کو صحیح راستہ دکھائے۔ آمین۔