رمضان المبارک کی آمد سے دو روز قبل ہی تمام ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوجاتا ہے حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور اسلامی ملک کے شہری ہیں۔ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے یہ بات سب جانتے ہیں لیکن عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے میں اخلاقی طور پرہمارا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
بحیثیت مسلمان ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہو لیکن پھل، سبزی، کھجوریں ،بیسن غرضیکہ سحری اور افطاری کے اوقات میں استعمال ہونے والی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بیس سے تیس فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی چیز سستی ہوتی دیکھی ہے تو وہ سافٹ ڈرنکس،بناسپتی گھی،چائے ،بدقسمتی سے یہ سب اشیا ملٹی نیشنلز کی پیداوار ہیںجو کہ غیر مسلم ہیں جبکہ کھجوریں،بیسن،چینی سبزیاں،پھل، مصالحے وغیرہ مسلمانوں کی پراڈکٹس ہیں۔رمضان المبارک ہو یا کوئی بھی اسلامی تہوار ہر اس چیز کو مہنگا کردیا جاتا ہے جو عام آدمی کے استعمال میں ہوتی ہے۔
مہنگائی کے سدباب کے لئے حکومت آئے روز نت نئے مصنوعی طریقے استعمال کرتی ہے لیکن مہنگائی کی اصل جڑ کو پکڑنے کی بجائے متبادل کے طور پر کبھی سستے رمضان بازار، کبھی سستے ماڈل بازار قائم کرکے سمجھا جاتا ہے کہ عوام الناس کو سستی اور معیاری اشیا دستیاب ہونا شروع ہوگئی ہیں لیکن بنیادی معاملات وہیں رہنے دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں ۔پنجاب حکومت نے پانچ ارب روپے کی سبسڈی سے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سستے رمضان بازار قائم کئے ہیں۔
جن میں عوام کو سستا آٹا ،چینی اور دیگر ضروری اشیا عام مارکیٹ سے کم قیمت پر دستیاب ہوں گی جس کے لئے پوری صوبائی حکومت، مارکیٹ کمیٹی کا عملہ ،محکمہ خوراک و زراعت،ویٹرنری ڈاکٹرز، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار، نائب تحصیلدار، پٹواری سمیت دیگر اہلکار ان بازاروں کی نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں لیکن ان تمام انتظامات کے باوجود عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ان سستے ماڈل رمضان بازاروں میں سٹال لگوانے،شامیانے ،لائٹنگ،سیکورٹی پر اچھا خا صا بجٹ صرف ہوتا ہے جبکہ وزرا اور سیکرٹریز، کمشنرز کے دوروں پر الگ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔
Markets
حکومتی نمائندے کروڑوں روپے صرف کرکے ان بازاروں کے دورے کرتے ہیں اگر وہی رقم مارکیٹس اور بازاروں پر خرچ کرکے ان پر مربوط چیک اور بیلنس کا نظام قائم کیا جائے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں لیکن اس کی بجائے مصنوعی طریقے اختیار کرکے نظام کو تباہ کیا جاتا ہے
تمام شہروں کی انجمن تاجران ،غلہ منڈی،سبزی منڈی کی تاجر تنظیموں ،سول سو سائٹی کو شامل کرکے ان کی مشاورت سے پہلے سے موجود بازاروں میں بھی وہ تمام سہولیات دی جاسکتیں ہیں جو سستے رمضان بازار اور سستے ماڈل بازار قائم کرکے حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں بشر طیکہ تاجر تنظیمیں منتخب ہوں اس طرح تاجروں کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم ہوگی اور انہیں عوام الناس کو بنیادی اشیا کی فراہمی میں زیادہ آسانی ہوگی لیکن اگر ہر ادارے کے مقابلے میں متبادل نظام لایا جائے گا تو اس سے مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کئے جاسکتے۔
Load Shedding
حکومتی دعوں کے باوجود لوڈشیڈنگ کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری ہے جس کی وجہ سے روزہ دار سخت گرمی میں شدید مشکلات کا شکار ہیں حکومت کو لوڈ شیڈنگ میں کمی لا کر عوام سے دعائیں لینی چاہیے۔