منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن

Newspapers

Newspapers

آج بھی حسب روایت میری میز پر اخبارات کا انبار موجود ہے اور حیر ت کی بات یہ ہے کہ اِن اخبارات میں موجود خبریں اور خبروں کا متن تو ذراذراسامختلف ہے مگر ہر روزنامے کے فرنٹ پیچ پرایک اشتہارایساہے جس کا سائز ایک سا ہے اور وہ اشتہاریہ ہے کہ ”حکومت پنجاب کا رمضان المبارک کے دوران سستے آٹے کی فراہمی کے لئے 5ارب روپے کا تاریخی پیکچ، 10کلوگرام آٹے کا تھیلا 310 روپے میں، اور اِسی کے ساتھ ہی اِس اشتہار میں حکومت پنچاب کا یہ بھی کہنا ہے۔

اِس سبسڈی سے پنجاب کے عوام کو 10 کلو گرام آٹے کے 1 کروڑ 40 لاکھ تھیلے اِن ارزاں نرخوں پر فراہم کئے جائیں گے، علاوہ ازیں حکومت پنجاب کی جانب سے دیئے جانے والے اشتہا رمیں یہ بھی جلی حرفوں میں تحریر ہے کہ تاجروں اور تیارکنندگان کے تعاون سے پنجاب بھر میں 340سے زائدرمضان بازاروں میں* فی کلوگرام چینی45روپے، *فی درجن انڈے بازار سے 12روپے کم قیمت پر ، *فی گلوگرام گھی بازارسے 10روپے کم قیمت پر،* پھل سبزیاں اور چکن مارکیٹ سے خاطر خواہ کم قیمت پر دستیاب ہوں گی۔

مگر معاف کیجئے گا…؟ اِس اشتہار میں غریب عوام کی سُہولت کے لئے یہ کہیں بھی نہیں بتایاگیاتھاکہ یہ ساری اشیاایک نمبر ہوں گیں یا دونمبر …!میں یہ اِس لئے کہہ رہاہوں کہ ہمارے یہاں ایسے موقعوں پر ایساہی ہوتاہے،چلواگراِس کا تذکرہ حکومت پنجاب نے نہیں کیاتو کیا ہوا…؟مگر عوام سمجھ گئے ہیں کہ دس کلو گرام آٹے کے 1 کروڑ 40 لاکھ تھیلوںمیں کیساآٹاہوگا..؟اور 340 سے زائدرمضان بازاروں میں 45روپے کلو ملنے والی چینی کیسی ہوگی..؟بازار سے 12روپے کم قیمت پر فی درجن ملنے والے انڈے گندے ہوں گے یا اچھے؟

عوام تو یہ بھی جانتے ہیں کہ 10روپے فی گلو کم قیمت پر ملنے والا گھی کیسا ہوگا..؟اور اِن سستے بازاروں میں جو پھل اور سبزیاں کم قیمت پر دسیتاب ہوں گیں وہ اِنسان کے کھانے کے قابل ہوں گیں یا جنہیں بکرے اور بکریاں بھی نہیں کھائیں گیں …؟بہر حال …!حکومتِ پنجاب نے اپنے صوبے کے غریب لوگوں کا دردمحسوس کیا اور اِن کیلئے جھوٹے منہ ہی کچھ کردیکھایا ہے۔

مگر افسوس ہے کہ دوسری جانب حکومتِ سندھ ہے جس نے اپنے صوبے کے غریب عوام کے لئے ماہِ رمضان المبار ک میں اشیائے خوردنوش کی قیمتوں پر کسی بھی قسم کی سبسڈی کا کوئی اعلان تک نہیں کیا ہے،ایک عالم گواہ ہے کہ ہمارے مُلک پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے جو بھی ا دیان ہیں اِن کی حکومتیں اپنے مذہبی ایام میں اپنے شہریوں کے لئے بلاتفریق روزمرہ کی استعمال کی اشیاپر خصوصی رعایتی پیکچز کا اہتمام کرتی ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں تو سب کچھ لٹ لگتاہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماہِ رمضان میں شیطان کو قید کردیاجاتاہے مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جیسے میرے دیس میں ہمارے حکمران اور صوبوں کی انتظامیہ دیدہ ودانستہ طورمُلک بھر میں ذخیرہ اندوزاور منافع خورکو من مانی کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیتی ہیں یہ بے لگام منافع خور غریبوںکے گلے پر مہنگائی کی چھری پھیر کر غریبوں کو بیدردی سے ذبح کررہے ہوتے ہیں۔

یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتاہے اِسے روکنے اور کنٹرول کرنے والاکوئی نہیں ہوتاہے ، آج ہمارے حکمرانوں نے دنیادکھاوے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے خاطر ماہ رمضان المبار ک میں وفاق سمیت چاروں صوبائی حکومتوں میں بہت سارے سستے بازار لگادیئے ہیں مگر ایسے سستے بازاروں کا کیا فائدہ ہے ..؟جہاںسے عوام کو سستی چیزیں ملنے کے بجائے مہنگی اور ناقص اشیامل رہی ہو؟

اگرچہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ حکومت نے ماہ رمضان میں غریب عوام کے لئے مُلک بھر میں سستے بازار لگائے ہیں اور بہت ساری اشیاء پر سبسڈی بھی دی ہے مگردوسری طرف ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی ہے کہ سبسڈی دی ہے یا سبدیدی ہے…؟ پہلے تو حکومت عوام کو یہ سمجھائے کہ یہ سبسڈی کیا بلاہے…؟ اور یہ سبدیدی وغیرہ کیا چیز ہے…؟” ابھی میں یہ سوچ رہی رہاتھا کہ اچانک کسی نے گھر کے مین گیٹ پر دستک دی اوربیل بجائی ….معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ چاچانظیر احمد آئے ہوئے ہیں اور وہ شدت سے مجھ سے ملاقات کے متلاشی ہیں۔

خیر اِن سے جب آمناسامناہوااور ملاقات ہوئی تو حضرت سے دوران گفتگو معلوم ہو ا کہ اِنہیں بھی حکومت کی جانب سے اشیائے خوردنوش پر دی جانے والی سبسڈی پر تحفظات ہیں اور یہ بھی خاصے غصے میں ہیں اُنہوںنے کہاکہ” ارے میاں اعظم عظیم صاحب …!یار حکومت عوام کو سبسڈی کا جھانسہ دے کر کیوں بے وقوف بنارہی ہے …؟ کیاعوام پہلے ہی کچھ کم پریشان ہیں ..؟جو حکومت عوام پر سبسڈی کا بہانہ کرکے عوام پر مہنگائی کے مزید بوجھ ڈالے جارہی ہے ،یہ کیا اور کسی سبسڈی ہے..؟

Inflation

Inflation

جس سے مہنگائی تو جوں کی توں ہے اوراِس پراُلٹا حکومت احسان جتاتی ہے کہ ہم نے غریبوں کے لئے اشیائے صرف پر اربوں کی سبسڈی دے دی ہے… ارے حکمرانوں ہم غریبوں سے تو پوچھو کہ تمہاری سبسڈی کا غریبوں کو ایک رتی کا بھی فائدہ نہیں ہے …تم نے یا کسی اور نے کچھ نہیں دیاہے ..اللہ کی توبہ رمضان کے آتے ہیں بازاروں میں منافع خوروں نے مہنگائی کی آگ لگادی ہے۔

اشیائے خوردنوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ، منافع خوروں سے کچھ بولو تو کہتے ہیں کہ یہ کیا کریں…؟ اِنہیں تو اوپر سے ہی چیزیں مہنگی مل رہی ہیں بھلا یہ مہنگاخرید کر سستا کیوں فروخت کریں گے…؟اَب کوئی اِن سے یہ پوچھے کہ یہ اُوپر سے کیا مراد ہے ..؟اور اُوپر والے کون سے لوگ ہیں…؟ کہیں اُوپر والوں کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہمارے حکمران اور صوبے کی انتظامیہ خود مہنگائی کرنے والوں کو حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ تاجر برادری آزاد ہیں یہ جس طرح سے چاہیں مہنگائی کریں یہ اِنہیں کچھ نہیں کہیں گے۔

ہوناتو یہ چاہئے کہ جیسے آج حکومت نے دہشت گردوں سے مُلک کو پاک کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب شروع کیاہے ویساہی ایک بڑاآپریشن حکومت کو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی شروع کردیناچاہئے اگرچہ حکومت یہ کام ابھی نہ کرے مگر ضروری ہے کہ حکومت مُلک بھر میں اگلے سال رمضان المبارک کی آمدسے قبل ضرب العضب کی طرز کا ایک آپریشن کرے اور منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کاخاتمہ یقینی بنائے کیوں کہ یہ بھی مُلک اور عوام کے لئے دہشت گردوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں دہشت گرد بم دھماکوں اور گولیوں سے عوام کو مارتے ہیں مگرمنافع خُور اورذخیرہ اندوز عوام کو مہنگائی کے شکنجے میں جکڑکر عوام کے جسم میں موجود خون کے آخری قطرے تک کو نچوڑلیتے ہیں۔

اِس لئے حکومت کو لازمی طور پر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی ایک بڑااور سخت ترین آپریشن ضرورکرناچاہئے تاکہ مُلک سے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کا بھی خاتمہ یقینی ہوسکے…”یہ وہ جملے ہیںجوچاچانظیراحمدنے مجھ سے ملاقات کے دوران ایک سانس میں کہے آج یہ مجھے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی گرم نظرآرہے تھے اِنہیں میں نے اتناغصے میں پہلی بار دیکھاتھا شاید اِن کا روزے سے ہوناایک وجہ تھی یا واقعی یہ حکومتی بے رحمی اور جھانسہ دینی والے سبسڈی پر قدرے غصے اور گرم مزاج تھے بہر حال..!کچھ بھی ہے۔

مگر آج چاچانظیر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تپے ہوئے تھے مگراِن کی کیفیت دیکھنے کے بعد مجھے بعد میں یقین ہوگیاتھاکہ چاچاکا غصے میں آنے اور چیخنے چلانے کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی جانب سے ماہِ رمضان المبارک میں اشیائے خوردنوش پرآٹے میں نمک جتنی دی جانے والی وہ سبسڈی تھی آج جس کا ہونااور نہ ہوناسب ہی برابرتھا کہ اَب اِس موقع پر میں یہ سوچ رہاہوں کہ آج ایسے کتنے ہی چاچانظیراحمدہوں گے… ؟جو ماہِ رمضان المبارک میں اشیائے خوردنوش پر دی جانے والی بے مقصد سبسڈی پرایساہی سوچ رہے ہوں گے..؟جیساکہ چاچانظیر احمد اور میں سوچ رہاہوں ..مگرافسوس ہے کہ اِس پر ہمارے حکمران جیسے بہرے….سے ہوگئے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com