لاہور (جیوڈیسک) حساس اداروں نے سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرلی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ ایلیٹ فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے اہلکاروں، ایس پیز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کے گن مینوں نے کی اور بریٹا پسٹل، جی تھری اور ایس ایم جی کا استعمال کیا گیا۔
پولیس ہیڈ کوارٹرز سے آنے والے کسی بھی اہلکار نے فائرنگ نہیں کی، ایلیٹ اور کوئیک رسپانس فورس کے اہلکار ایس پی سیکیورٹی علی سلیمان کی قیادت میں موقعے پر پہنچے، فائرنگ میں 20 سے زائد اہلکاروں نے حصہ لیا، رپورٹ پوسٹ مارٹم رپورٹس، افسران اور اہلکاروں کے بیانات کے بعد مکمل کی گئی اور جلد حکام کو بھجوا دی جائے گی۔
دوسری جانب جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے گزشتہ روز بھی افسروں اور اہلکاروں کے بیانات قلمبند کیے، اب تک 1500 سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں، زیادہ تر اہلکاروں نے بیان دیا کہ جب وہ موقعے پر پہنچے تو واقعہ ہو چکا تھا، ادھر ترجمان پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں کہ واقعے میں ملوث پولیس افسروں کی قربانی اور گرفتاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور محکمانہ انکوائری کمیٹی کے سربراہ کی 3 مرتبہ تبدیلی بھی اسی فیصلے کی کڑی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل ٹریبونل نے جناح اسپتال میں زیر علاج 4 زخمیوں کو بیانات قلمبند کروانے کیلیے طلب کر لیا، گزشتہ روز ٹربیونل کے روبرو ایم ایس جناح اسپتال نے بیان دیا کہ 23 مریض اسپتال لائے گئے، جس میں سے 3 جاں بحق ہوئے، 16 زخمیوں کو علاج کے بعد فارغ کر دیا گیا، 4 مریض ہڈیوں کے آپریشن کیلئے اب بھی زیر علاج ہیں۔
عدالتی معاون آفتاب احمد باجوہ نے استدعا کی کہ سانحہ کے روز وزیراعلی پنجاب، رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کے موبائل ریکارڈ طلب کیے جائیں جبکہ پولیس افسران کی وائرلیس پر بات چیت کا ریکارڈ بھی منگوایا جائے، زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
جس کی فہرست بھی ہمارے پاس موجود ہے، اس معاملے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹریبونل قانونی نہیں، عدلیہ کی توہین کی جا رہی ہے، جسٹس علی باقر نجفی نے قرار دیا کہ ہم مینڈیٹ کے ذریعے یہاں بیٹھے ہیں، اگر یہ غیر قانونی فورم ہے تو پھر آپ پیش کیوں ہو رہے ہیں، عدالتی معاون شبنم ناگی نے استدعا کی کہ وزیراعلی پنجاب کو بیان یکارڈ کروانے کیلیے طلب کیا جائے۔