مینگورہ (جیوڈیسک) سوات کی رہائشی ایک نوجوان لڑکی نے ناک کاٹنے پر اپنے شوہر کے خلاف قصاص کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے اٹھارہ سالہ شاہدہ نے بتایا کہ سات سال کی عمر میں اُس کی شادی ملزم صاحبزادہ سے کردی گئی تھی، جبکہ صاحبزادہ کی بہن کی شادی شاہدہ کے بھائی سے ہوگئی۔ شاہدہ کے مطابق شادی کے بعد سے اُس پر مسلسل تشدد کیا جا تا رہا۔
اُس نے بتایا کہ ‘ایک مرتبہ میرے شوہر نے میرا ہاتھ توڑ دیا اور مجھے پنکھے سے لٹکانے کی بھی کوشش کی۔ ظلم کا شکار ہونے والی شاہدہ نے بتایا کہ اسے بیس دن کے لیے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا تھا، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح زخمی حالت میں منجا کے علاقے میں واقع اپنے شوہر کے گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور علاج کی غرض سے سیدو شریف ہسپتال میں داخل ہوگئی۔
شاہدہ کے مطابق جب اُس نے اپنے والد کو خود پر ہونے والے تشدد سے آگاہ کیا تو انہوں نے کبل پولیس اسٹیشن میں ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی، لیکن ایف آئی آر کے بعد اُس کے شوہر نے اُس پر تشدد میں مزید اضافہ کر دیا۔ پولیس نے اسپیشل پولیس کے سپاہی صاحبزادہ کو پانچ جون کو گرفتار کرلیا تھا۔
شاہدہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُس کے ڈھائی سالہ بیٹے کو اُس کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے مفت علاج کے بھی احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ وہ اپنی ناک کا علاج کروانے سے قاصر ہے۔ شاہدہ کی والدہ بختی راج اور والد ظاہر شاہ نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کا نوٹس لے اور انہیں انصاف فراہم کرے۔
اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے خویاندو تولانا این جی او کی چیئرپرسن تبسم عدنان نے بچپن کی شادیوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو نو عمر بچیوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون بنانا چاہیے۔