بنوں (جیوڈیسک) شمالی وزیرستان کے لاکھوں متاثرین میں گلزار نامی شخص بھی شامل ہے۔ اس شخص نے ایسا کیا کیا ہے کہ جیوکی نشاندہی پرضلعی انتظامیہ نے اسےسرکٹ ہاوٴس طلب کرکے امدادی سامان اس کےحوالے کیا۔ گلزار خان نے 35 سالہ ازدواجی زندگی میں تین شادیاں کرکے لگ بھگ تین درجن گل کھلائے اور تین بن کھلے مرجھا گئے۔ اس کا کہنا ہے کہ تینوں بیویوں نے چوتھی شادی کی بھی اجازت دے رکھی ہے مگر جیب اور حالات اجازت نہیں دیتے۔ بچے بھی کہتے ہیں کہ اگر آپ کا شوق ہے۔
تو ایک شادی اور کرو،پیسے کی کمی ہے ،تینوں بیویا ں اجا زت دیتی ہیں کہ ایک شادی اور کرو پھر ہم تم سے آزاد ہو جا ئیں گی۔شمالی وزیرستان کے علاقے شوا سے تعلق رکھنے والے گلزار خان کم بچے خوشحال گھرانہ کے دعوے کی مکمل نفی کرتا ہے۔ کثرت اولاد سے نہ ماتھے پہ بل پڑتے ہیں، نہ ہی پسینہ آتا ہے ۔نہ چال بدلی نہ کوئی لڑکڑاہٹ جو بھی خریدتا ہے۔
درجنوں اور ڈھیروں خریدتا ہے۔ شکر ہے گلزار خان چینی باشندہ نہیں جہاں ایک یا دو بچوں کی اجازت ہے۔ اس کے دو بڑے بیٹے عرب امارات میں مقیم ہیں ۔سب سے چھوٹے بچے نے ابھی دنیا میں پوری طرح آنکھ بھی نہیں کھولی۔
وہ بچوں کے نام نہیں ان کی تعداد کچھ یوں بتاتا ہے۔پہلی شا دی سے آٹھ لڑکیاں اور چا ر لڑکے، دوسری سے تین لڑکے چھ لڑکیاں، تیسری سے پانچ لڑکیاں اور چھ لڑکے، چار ہم لوگ ہیں یہ حساب کرو کہ ہم کتنے بنتے ہیں۔گلزار خان کا گھرا نہ نقل مکانی کرکے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوا ۔پوتے،پوتیوں کے ساتھ اس خاندان کی تعداد 100 سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان عرفان اللہ محسود کہتے ہیں کہ نارتھ وزیرستان کی اوسط فیملی سائز جو رپورٹ ہوا ہے وہ 14.4 ہے ۔ڈی آئی خان میں جو لوگ ہمیں رپورٹ ہوئے ہیں ۔ریکارڈ کے مطابق اس میں 19,14,15,16 بچوں کی تعداد نارمل بات ہے ۔یہ گلزار خان کا ہی جگرا ہے کہ وہ اتنے بڑے خاندان کے ساتھ گل و گلزار ہے عام پاکستانی ایسی مہم جوئی سے اجتناب ہی برتیں، نہ وطن عزیز اور نہ اس کے وسائل ایسی آبادی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔