خواہشات کا پل صراط

India

India

میرا ایک بہت پیارا سا دوست ہے ارشد عالم کئی سال پہلے جب وہ بھارت یاترا گیا تو اس نے” خاردار تار کے اس پار”ایک سفرنامہ بھی لکھا تھا یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔ایک بار میں اس سے ملنے گیا تو اس کے ہاتھ میں چملیکی سی چھوٹی سی کتاب تھی جسے وہ پڑھ پڑھ کر خوش ہورہا تھا مجھ پر نظر پڑتے ہی اس نے وہ کتاب ایسے چھپانے کی کوشش کی جیسے کوئی بچہ کھلونا چھن جانے کے خوف سے سہم سہم جاتاہے میں نے پو چھا یہ کیاہے؟

”کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔اس نے جواب دیا
”پھر بھی ۔۔۔ میں نے استفسار کیا
”تم میرا مذاق اڑائو گے ارشد بولا

”نہیں یار۔۔۔میں نے کہاہو سکتا ہے تم مجھے حیران کردو۔۔۔اورپھر اس نے مجھے واقعی حیران کردیا کہنے لگا یہ میری خواہشات کی کتاب ہے پورا سال میرے دل میں جو خواہشات جنم لیتی ہیں میں لکھتا رہتاہوں۔ پھر میں ان میں سے قابل ِ عمل کا انتخاب کرتاہوں خواہشات کی تو کوئی انتہا نہیں بادشاہ بھی اپنی تمام خواہشات پوری نہیں کرسکتا لیکن ہر سال مجھے ایک ٹارگٹ۔۔ ایک ہدف۔۔ ایک چیلنج درپیش ہوتاہے زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے یہ ضروری ہے۔

میں دلچسپی سے اس کی باتیں سن رہاتھا اور ارشد بولے چلا جارہا تھااس نے کہا یار کبھی سوچاہے!خواہش۔۔امیدکی پہلی سٹیج ہوتی ہے جس شخص کے دل میں خواہشات جنم نہیں لیتی میں دعوے سے کہہ سکتاہوں وہ زندگی کے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتادنیا میں آج تلک جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس کے پیچھے خواہشات کا عمل دخل ضرو رہے انسان نے ا ڑنے کی خواہش میں جہاز ایجاد کر لیا۔۔۔

میںنے کہا غالب نے کیا کمال کی بات کی ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

”ہاں۔۔۔اس نے سرہلاتے ہوئے جواب دیا بعض اوقات ہمارے دل میں کئی خواہشات ایسی پیدا ہوتی ہیں جو لوگوں کو معلوم ہو جائیں تو ہم کسی سے نظریں ملاکر بات کرنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ کئی مرتبہ ایسی ایسی خواہشات کہ ہم خود دل ہی دل میں شرمسار ہو جاتے ہیں بسا اوقات ہمیں خود حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دل میں ایسی فضول، بیہودہ اور عجیب و غریب خواہشات کیونکر در آتی ہیں؟۔۔۔

Poor People

Poor People

کبھی کبھی سو چتاہوں کیا خواہشات تتلیوں کی مانند ہوتی ہیں کبھی پکڑی جاتی ہیں کبھی ہم ان کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں کبھی تتلیاں پکڑتے پکڑتے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہیں اور ہم حسرت سے انہیں اپنی دسترس سے دور ہوتا دیکھتے ہیں بہرحال خواہشات کو ترقی کا نقطہ ٔ آغاز کہا جا سکتاہے سیانے کہتے ہیں مثبت سوچ سے اچھی خواہشات جنم لیتی ہیں لیکن اس کا کیا کریں اب تو ہم نے اپنے دلوںکو خواہشات کا قبرستان بنا رکھاہے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اچھی ،بری اور بدترین خواہشات نے دنیا کو اسیر کررکھاہے اور آنکھیں بند کرکے بیشتر لوگ اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اس کیلئے جائز ،ناجائز ۔۔حلال حرام۔۔ اچھائی برائی میں تمیز ختم ہوکررہ گئی ہے صرف ہم جیسے دنیا دارہی اس دوڑ میں شامل نہیں غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کیسے کیسے عزت داروں کو خواہشات نے رول کررکھ دیاہے پھر بھی کوئی سبق حاصل کرتا ہے۔

نہ عبرت ۔۔یہی سچائی ہے خواہشات کی تو کوئی انتہا نہیں ہوتی بادشاہ بھی اپنی تمام خواہشات پوری نہیں کرسکتا یہ بات تو بہت مشہورہے کہ ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں دوپہلو ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہم نے ایک پہلو کو اپنی زندگی پر حاوی کرلیاہے اور چا ہتے ہیں دوسرے بھی ہمارے نقطہ ٔ نظرسے سوچیں جب بھی کوئی’ خیر’ کو چھوڑ کر’ شر’کو اپنائے گا مسائل کا جنم لینا فطری بات ہوگی جو خواہشات کو ایک ٹارگٹ ۔۔ ایک ہدف۔۔ ایک چیلنج سمجھتاہے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لے گا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں آج تلک جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس کے پیچھے خواہشات کا عمل دخل ضرو رہے۔ خواہشوں کا جنم لینا فطری اور قدرتی امرہے اس طرح دل میں خواہشیں پالنا شہد کی مکھیاں پالنے کی مانندہے ترقی کی خواہش،آگے بڑھنے کی خواہش، دوسروںکے کام آنے کی خواہش،اپنے حالات بدلنے کی خواہش، غربت،جہالت ختم کرنے کی خواہش ۔۔ سب کے دل میں موجزن ہونی ناگزیرہے یہی خواہشیں تو زندگی کی علامت ہیں۔اسے دنیا کا حسن بھی کہا جا سکتاہے میرے دوست ارشد کو ایسی ہی خواہشوں سے عشق ہے اور عشق کرنے والے ہر پل مضطرب رہتے ہیں جب جینے کی خواہش ختم ہو جائے تو انسان کی فیزیکل موت واقع ہو جاتی ہے محض کندھوںپر اپنا لاشہ اٹھائے پھرنا زندگی تو نہ ہوئی نا۔۔ خواہشوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے صندل کی طرح سلگنا پڑتاہے ایک پتے کی بات بتائوں نیک خواہشات صدقہ ہوتی ہیں اور صدقہ بلائوں کو کھا جاتاہے میرے وطن کے نو جوانوں میں قوت برداشت کم اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔

حالات نے انہیں عجب دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے پڑھ لکھ کر بھی ملازمت ملنا جوئے شیر کے مترادف ہے شاید اکثریت کا مطمع ٔ نظر ملازمت ہی ہے لیکن تجربے کی بات یہ ہے کہ اپنا کاروبارکرنے والے بہت جلد کامیاب ہو جاتے ہیں چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی ملازمت سے کہیں بہترہے نہ عزت ِ نفس مجروح ہونے کا ڈر نہ چھٹی کی در خواست۔۔۔ آج پاکستان میں نہ جانے کتنے لوگوں کی آنکھوں میں خواب ہیں سب ترقی کرنا چاہتے ہیں امید ،ناامیدی کے درمیان ایک خوف حائل ہے یقین جانئے یہ خوف آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جوخواہشات کے پل صراط پر کھڑے ہوکر چمکیلی کتابیں لکھ رہے ہیں ایک شاندار مستقبل ان کا منتظرہے جائز ،ناجائز ۔۔حلال حرام۔۔ اچھائی برائی میں تمیزان کیلئے امتحان ہے دیکھتے ہیں کون کون سرخرو ہوتا ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی