تاریخ کے سچ کی تکرار

German Planes

German Planes

یہ دوسری جنگ عظیم تھی جرمن طیاروں کی بمباری نے لندن کو کھنڈر بنا دیا تھا۔ آبادی پریشان، بربادی وسعت پذیر تھی۔ تباہ حال المیوں پر ملاقاتیوں کا ایک وفد چرچل کے پاس پہنچا وفد نے بات کی اثنائے گفتگو میں ایک عجیب اور غیر متعلقہ بات چر چل کی زبان سے نکلی کیا ہماری عدالتیں اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے رہی ہیں عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے؟ وفد نے حیرت سے بھرے تاثرات میں کہا:۔ “جی ہاں عدالتیں انصاف کر رہی ہیں “چرچل بولا تب فکر کی کوئی بات نہیں “ہم جنگ میں کامیاب ہوں گے ہمارا ملک محفوظ رہے گا “آج کے پاکستان میں ہم صدیوں کی دانش کے حاصل، عدل کے قیام اور قانون کی بالا دستی کی بجائے گریز کی روش پر بضد ہیں۔

عدلیہ نہ تو محاذ جنگ پر برسر پیکار ہوتی ہے اور نہ ہی شہری دفاع کی سرگرمیوں سے اس کا کوئی تعلق ہوتا ہے مگر تاریخ کے سچ کی اس تکرار کو ماننا پڑتا ہے کہ جن معاشروں میں انصاف نہیں ہو تا وہ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ۔ ملک میں جمہوریت ہو ، عسکری صلاحیت ہو ، طاقت ور انتظامیہ ہو ، معاشی ترقی کا عروج ہو ، عیش و عشرت ہو ، انصاف نہ ہو تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔

اپنے وقت کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت سوویت یونین کے پاس طاقت ور فوج تھی ، اسلحہ کے انبار تھے معیشت مضبوط تھی انصاف نہ ہو نے پر تمام ریاستیں ، تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئیں۔ یوگو سلاویا ، دنیا کی ساتویں بڑی عسکری قوت تھی جو قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے “بالکانائیزیشن “کے عنوان سے ملک تماشا گاہ عالم میں تماشا بن گئی۔ صومالیہ اسلحہ کے ڈھیر رکھتا تھا۔

انصاف کی بالا دستی نہ ہونے سے وارڈ لارڈز میں تقسیم ہو کر پارہ پارہ ہو گیا ۔ چیکو سلواکیہ آج دو ملکوں میں صرف انصاف کے عدم پر تقسیم ہے چیکوسلواکیہ کے نام سے ماضی کے اوراق میں ایک ملک تھا ۔ آج ہم یقینا اس بحث سے نہیں نکل پارہے کہ وطن عزیز میں عدلیہ کا وہ کردار نہیں جو ہونا چاہیئے افتخار محمد چوہدری جس کی خاطر عوام شاہرات پر ایک آمر کے خلاف نکلے اُس کا کردار بھی متنازعہ ترین ہے اور 11مئی کے الیکشن کو تمام جمہوری پارٹیاں متنازعہ ترین قرار دے رہی ہیں دنیا میں جہاں جہاں آزاد عدلیہ حکومتی دبائو کے بغیر فیصلے سناتی ہے انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ 1998 میں ایران کے صدر ابوالحسن بنی صدر ، پیراگوائے کے صدر رائول کیو پاس کو 1999 میں برازیل کے صدر فرینڈ و کو 1992میں وینزویلا کے صدر کا رلوس آندرے کو 1993 میں ان کے عہدوں سے عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں ہٹایا۔ نکاراگوا کے سابق صدر کو 1993میں فنڈز کے ناجائز استعمال پر عدلیہ نے دو سال کی سزا سنائی۔

Paraguay

Paraguay

پیرا گوئے کے صدر رائول کیوپاس کا مقدمہ اس حوالے سے دلچسپ ہے کہ ان پر یہ الزام ثابت ہوا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر اقتدار سنبھالا۔ تاہم عدالت میں وہ یہ ثابت کرنے میں ،کامیاب رہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ۔ اور انہوں نے الیکشن کروادیئے تھے ۔ مگر عدلیہ نے جنرل اوویڈوکو جیل بھجوا دیا کیونکہ متذکرہ جنرل نے انتخابات سے قبل رائول کیوپاس کو صدر بننے کی دعوت دی تھی۔

وطن عزیز کی 67سالہ عمر میں ہر آمر اور جمہوری حکمران نے عدلیہ کو دبائو میں رکھ کر اپنی مرضی کے فیصلے منصفوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ اس مختصر عمر میں عدلیہ ،بطور ادارہ تو موجود رہی مگر حکمرانوں کو جوابدہ حکمرانوں کی برگزیدگی کی اسیر اور حکمرانوں کے احتساب سے قاصر ، نظریہ ضرورت کی ننگی تلوار ایوان عدل میں ہر دور میں لٹکتی رہی اور 67برسوں سے مناظر سر کے بل کھڑے ہیں عدلیہ بحالی کی تحریک چلی جس میں وکلاء اور میڈیا نے اہم رول ادا کیا اور اس تحریک میں 67افراد نے لہو کا خراج ادا کیا۔

چوہدری شجاعت نے چیف جسٹس کو ایک وقت میں حکومتی راستے میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور اُن کے اس بیان پر کئی قوتیں سیخ پا ہوئیں یہ سوال جواب طلب ہے کہ عدالتی اختیارات کو اپنی مرضی کے مطابق مولڈ کس نے کیا عدلیہ کے ساتھ تمسخرانہ ، مضحکہ خیز اور تحقیر آمیز رویہ کس نے اپنایا ؟ ایک غیر آئینی صدر اور ایک آمر کے ہاتھوں نظریہ ضرورت کے تحت حلف کس نے اُٹھایا اور جب عدلیہ کی بحالی کیلئے عوام کی لاشیں گریں تو عوام کو افتخار محمد چوہدری کی شکل میں انصاف کی حقیقی کرن نظر آئی مگر اُسی کرن نے حقیقی عوامی مینڈیٹ چرانے کی کیفیت پیدا کر کے عوامی رائے کو متنازعہ ترین بنا دیا اور آج اُسی فیصلہ کی بنا پر ایک منصف کے ذاتی مفاد کی زد میں آکر وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ زیادہ وسیع اور مستحکم ہو رہا ہے۔

عوام کیلئے زندگی ایک آزار بن رہی ہے، غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر لوگ خاندانوں سمیت خود کشیوں پر مجبورہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کی پیشانیوں پر برائے فروخت کے بورڈ لگارہی ہیں، نوجوان اپنے گھرانوں کا مالی دبائو کم کرنے کیلئے جسمانی اعضاء فروخت کرنے پر مجبورہیں۔

Law

Law

پارلیمنٹ میں بیٹھی اشرافیہ کے عشرت کدوں، گاڑیوں، کارخانوں کی رونقیں ملک سے باہر نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں آج مجھے افتخار محمد چوہدری سے کہنا ہے کہ اقتدار کی تنخواہ دار سپاہ عوام کی آخری امید گاہ “عدالت عظمٰی”کے عوام دوست اقدام ہوا کرتے ہیں آپ کے متنازعہ کردار سے عوام عدلیہ پر انگلیاں اُٹھانے لگے ہیں آپ نے انصاف کے مندر کو نقصان پہنچایااور جب انصاف کے مندر کو نقصان پہنچتا ہے تو حکومتی ایوان بھی باقی نہیں بچتے جنگل کے قانون کے بانیوں اور ارباب اختیار کے جگادریوں کو اپنی روش بدلنا ہو گی۔ عدلیہ کا وقار بحال کرنا ہو گا۔ اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔ عدلیہ کو مفادات کی روش پر چلانا ریاستوں کو مٹا دیتا ہے۔
ّ

تحریر : ایم آر ملک