”درندگی کی انتہا

Humans

Humans

انسان کے دو باپ ہوتے ہیں۔ایک وہ جو بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سیکھاتا ہے اور دوسرا وہ جو روحانی تربیت کرتا ہے۔جسے استاد کہتے ہیں۔ مادی باپ بچے کے اخراجات برداشت کرتا ہے اور اس کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔ روحانی باپ بچے کو معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا،بولنا سیکھاتا ہے۔استاد دینی اور دینوی علوم کا درس دیتا ہے اور انسان کو شعور کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔آج انسان مریخ سے آگے نکل گیا ہے۔

تو استاد کی مرہون منت سے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ باپ اور اولاد کا ہوتا ہے۔جب یہی استاد درندہ بن جائے تو زمین کانپ اٹھتی ہے۔ آسمان تھر تھر کانپینے لگتا ہے۔جب ایک باپ اپنی بیٹی کی عزت سے کھیلنے لگے تو اس ے بڑا شیطان کو ن ہو سکتا ہے۔ انسانی روپ میں یہ حیوان جب درندگی کی انتہا کرتے ہوں گے تو زمین پھٹنے کو آتی ہوگی۔

مجھے تو ایسے استاد کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔کیا ایسی حرکات کرنے والا استاد کہلانے کے قابل ہے جو ہوس پرستی کی آگ میں جل کر اپنا مقام،تقدس تک بھول جاتا ہے اور رشتوں کی پامالی کرنے لگ جاتا ہے۔ایسے استاد کو چوراہے پر لٹکا کر پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا چاہیے۔

جب سے اسلام آباد میں واقع قائداعظم یونیورسٹی میں ایک استاد ،اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنی شاگرد کو حراساں کرنے کی خبر پڑھی ہے دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔بانی پاکستان قائداعظم سے منسوب یہ یونیورسٹی پاکستان کے درالخلافہ اسلام آباد کی زنیت ہے ،اس میں ہزاروں طلبات زیرتعلیم ہیں۔جہاں صدر پاکستان اور وزیراعظم بیٹھے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔یوں سمجھیں یہ یونیورسٹی ان کی ناک کے نیچے واقع ہے۔وہاں اس طرح کے واقعات کا ہونا قابل مذمت ہے۔

استاد اپنے شاگرد لڑکیوں سے ہوس پرستی کے خواہاں ہیں۔کورے کاغذ جسے تعلیمی اسنا د کا نام دیا گیا ہے کے حصول کے لئے جسم سے کھیلنے کے لئے حراساں کیا جاتا ہے۔کئی معصوم اپنی عصمت گنوا بیٹھی ہوں گی اور جس نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ،ان پر الزامات لگا کر بدنام کیا جاتا ہے۔

میں کہتا ہوں جو کسی کی بہن ،بیٹی سے جنسی تشدد کرتا ہے،کیا اس کے گھر میں بہن ،بیٹی نہیں ہوتی۔وہ اپنی بہن،بیٹی،بیوی کے درمیان کیسے زندگی گزارتا ہوگا۔کیا ان سے نظرین ملا پاتا ہوگا۔آج وہ کسی کی بیٹی کی عزت تار تار کر رہا ہے ،ہوسکتا ہے کسی اور یونیورسٹی میں اس کی بیٹی،بہن،بیوی کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہو۔کیا ایسا برداشت کر پائے گا۔عورت ذات کو کھلونا سمجھنے والے سکون کی زندگی نہیں گزار سکتے۔اب تو انسانوں سے حیوان بھی شرمانے لگے ہیں۔

انسانوں کے کرتوت دیکھ کر حیوان منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی جاہل بن گیا ہے۔اس کی آنکھوں پر ہوس کی پٹی بندھ گئی ہے۔نہ بہن نظر آتی ہے نہ بیٹی۔ہوس کی آگ میں جل کر دوزاخ کا ایندھن اکٹھا کر رہا ہے۔جن کے ضمیر مردہ ہو جائیں،دل زنگ آلودہ ہو جائیں،رب رحمان کی عبادت کرنے کے بجائے شیطان کے غلام بن جائے۔یہ انسان نہیں درندے کہلاتے ہیں۔

جس معاشرے میں یہ درندے بستے ہیں نہ وہ معاشرہ ترقی کر سکتا بلکہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ جاتا ہے۔قرآن مجید اٹھا کر دیکھو کیسی کیسی قومیں غرق ہو گئیں۔کبھی غور کرتے تو فلاح پاتے۔
ہم اہل مسلم تو کہلواتے ہیں مگر ہمارے افعال،غیر مذہب والوں سے بھی کہیں آگے نکل گئے ہیں۔اب تو جسم کے اندر جو روح ہے وہ بھی کانپ جاتی ہے۔کیسا انسان ہے عقل رکھتے ہوئے بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے۔عورت تو گھر کی زنیت ہوتی ہے اور ہم بھیڑ بکریوں سے بھی ابتر سلوک کرتے ہیں۔ایسا معاشرہ کہاں ترقی کر سکتا ہے۔

Resurrection

Resurrection

اس سے بڑی قیامت اور کیا ہوگی کہ اپنی بہن ،بیٹی کی پہچان نہیں کر سکتے۔ لڑکیاں اغوا کی شرح بڑھ گئی ہے۔ہزاروں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ لڑکیا ں اغوا کر کے ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے اور پھر اسے موت کے گھات اتار دیا جاتا ہے یا پھر وہ نصیبوں جلی خود کشی کر لیتی ہے۔مسجدوں،مدارسوں ،عبادت گاہوں میں نام نہاد ملاں،معصوم بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے ہیں۔ کتنی افسو س ناک بات ہے۔

قرآن مجید کی تعلیم دینے والے شیطانیت پر اتر آئیں تو قیامت نہیں آئے ۔رب تعالیٰ کی طرف سے عذب نہیں آئے گا تو کیا آئے گا۔آج پانی بے قابو ہے،زمین پھٹ رہی ہے،سورج آگ برسا رہا ہے۔یہ رب رحمان کی طرف سے عذاب نہیں ہے تو کیا ہے۔پھر بھی ہم باز نہیں آتے،عبرت نہیں پکڑتے۔گناہ پہ گنا ہ کیے جاتے ہیں۔
پرائیوٹ اسکولوں میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرکے ان کو بلیک میل کرنا روٹین بن گیاہے۔نجانے قانون کہاںسو رہا ہے؟۔سیانے سچ ہی تو کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے۔

سب جرائم اس کی ناک کے نیچے ہو رہے ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنا تماشا دیکھ رہا ہے۔ان درندوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔یا پھر ان درندوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔جو من مانی کرتے پھرتے ہیں ۔کیا یہ درندے بھی گلو بٹ کی طرح کٹ پتلی ہیں۔جن کو نچایا جاتا ہے۔

میری حکومت وقت اور چیف جسٹس سے پُر زور اپیل ہے کہ ایسے درندہ صفت لوگوں کے لئے کڑی سے کڑی سزارکھی جائے تاکہ کوئی گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ہماری بہن،بیٹی،بیوی ان درندوں کے چنگل سے بچ سکیں ۔ہماری عزتیں محفوظ رہیں۔پاک ملک پہلے ہی دشمنوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔جب دشمن ہی گھر کا ہو تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔قانون دان سوچیں اور لائحہ عمل کرائیں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر:مجیداحمد جائی۔۔۔۔۔
majeed.ahmed2011@gmail.com