موجودہ حالات کے تناظر میں اگر اسلامی ممالک کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک عجیب قسم کی افراتفریح انتشار لوٹ ماراور قتل وغارت گری کا بازار گرم نظر آئے گا ۔پاکستان ایران عراق شام مصر اردن فلسطین کشمیر لبنان افغانستان کیوبا برما الغرض کون سااسلامی ملک ہے جہاں پر امن فضا کا فقدان نہ ہو۔ قابل افسوس بات تو یہ بھی ہے کہ ان ممالک کی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہوگیا ہے۔
جہاں خود کش حملہ آوروں نے سعودی عرب کے ایک شہر شرورہ پر حملہ کرکے خود کش حملوں کا آغاز کر دیا۔ سعودی عرب پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ مختلف ملکوں میں ہونے والی پرتششد کاروائیوں کے لئے فنڈ فراہم کرتا ہے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر سعودی عرب میں اور دیگر ممالک میں ہونے والا ہر خود کش حملہ ناصرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔
فیس بک پر روزانہ ہی ایسی ان گنت ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں کہ جن میں ان ممالک میں ہونے والے ظلم اور بربریت کی ناقابل بیاں تصویر نظر آتی ہے کہیں بم دھماکوں میں انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑتے نظر آتے ہیں تو کہیں انسانوں پر ہونے والے تششدد ہیں کہیں قتل عام ہے تو کہیں بھوک اور افلاس سے مرتے تڑپتے سسکتے لاشے ہیں۔
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے بلکہ اسلام کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے ۔ پھر ایسا تضاد کیوں نظر آتا ہے َ؟کیوں اسلام کی پر امن تعلیم کی عملی تصویرکہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ؟؟۔افسو س تو اس بات کا ہے کہ مذکورہ بالا تمام جرائم اسلام کے نام پر کیئے جا رہے ہیں اور اس کو عین اسلام قرار دیا جارہا ہے ۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کا ان پرتششد کاروائیوں سے دور دور کا نہ تو تعلق ہے اور نہ ہی کوئی واسطہ ہے۔ پھر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟
اصل میں ایک لحاظ سے ان تمام کاروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی ان کاروائیوں کے خلاف کھل کر علماء اور مشائخ کو بولتے نہیں سنا جائے گا اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوتا نظر آئے گا، اگر کوئی آواز اٹھی بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس نے بھی ان ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی اس کی آواز کو ہی دبا دیا گیا ۔ اب حال یہ ہے کہ ان شدت پسندوں نے اپنی الگ ہی اسلامی خلافت کے قیام کا بھی اعلان کردیا ہے۔ جبکہ ان کے خود ساختہ بنائے گئے قوانین اسلامی قوانین سے بری طرح ٹکراتے ہیں۔
اسلام کی 1300 سالہ تاریخ میں کہیں بھی جہاد بالنکاح کی اصطلاح کسی نے نہیں سنی ہو گئی ۔ مگر اب یہ اصطلاح نام نہاد مجاہدین کے لئے استعمال کی جارہی ہے ۔ مختلف اسلامی ممالک کی خواتین کو ان جنگجووں کی تسکین کی خاطر بھیجا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ کیا اسلامی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی اس قسم کے نکاح کی مثال پیش کرتا ہے یقینا نہیں۔
تو ثابت ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے فرسودہ اور وقیانوسی نکاح کی نہ تو اجازت ہے نہ ہی اس کو نکاح کا نام دیا جاسکتا ہے یہ سراسر اسلامی تعلیم اور اخلاق کے خلاف ہے اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کرنے والے ہر اس منفی عمل کو اپنائے ہوئے ہیں جو اسلامی تعلیم کے سخت خلا ف ہے۔
Islamic law
اسلامی قوانین سب سے پہلے ایک انسان کی عزت جان مال کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیںاور اسلام کی تعلیم بھی یہ ہے کہ ایک عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جہاں تمام فرقے اور مذاہب امن سکون اور بلا خوف خطر اپنی زندگیوں کو گزار سکیں ۔ جہاں پیار محبت خلوص بھائی چارے کی فضا ہو ۔ جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پیئیں تو کسی کو بھی جان کا خوف نہ ہو۔اور پھر ان سب باتوں کے بعد تمام مذاہب اور فرقے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے طریقے کے مطابق فرائض اور عبادات بجا لائیں۔
یہ ہے ایک مثالی معاشرے کی وہ خوبصورت تصویر جس کا تصور قرآن پاک پیش کرتا ہے اور جسکا عملی مظاہرہ ہمیں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور اسوہ حسنہ سے خود دکھایا کیسے کیسے ظلم اور تکالیف آپ نے برداشت کیں۔ کافروں کے ناقابل بیاں مظالم آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے خندہ پیشانی سے برداشت کیئے مگر اف تک نہ کی۔ فتح مکہ کے موقع پرعام معافی کا اعلان کرنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم صبر حوصلہ تقوی قوت برداشت اور اسوہ حسنہ کی نہایت عمدہ اور بہتیرین مثال کو پیش کرتا ہے ۔ایک ایسی مثال جو نہ تاریخ عالم نے کبھی دیکھی اور نہ بیان کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات و اقعات میں ایسی کون سی نئی مثال قائم کی گئی ہے یا کم از کم اس عظیم محسن انسانیت کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سچ اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے توامت مسلمہ پر وارد ہونے والے مصائب اور مشکلات کے ذمہ دار اصل میں خود امت مسلمہ ہی ہے جس کے نااہل خود غرض اور لالچی حکمران دہشت گردوں کے ہاتھ میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کی طاقت کے باوجود کوئی عملی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں ۔ ان کو عوام کے جان و مال کے تحفظ سے زیادہ دولت جمع کرنے اور عوام میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کی دھن سوار ہے ۔ وہ معصوم اور بے گناہ عوام ان کی نظروں میں حقیر ہیں جن کے تحفظ کی ذمہ داری اللہ تعالی نے ان کے سپر د کی ہے۔
مگر یہ حکمران شاید نہیں جانتے کہ اللہ تعالی کی لاٹھی بے آواز ہے جب یہ چلتی ہے تو پھر اپنا بھر پور اثر بھی دکھاتی ہے ۔ جیسا کہ صدام حسین کے بیٹے پر یہ بے آواز لاٹھی چلی تو اس کی عزت دولت شہرت سب خاک میں مل گئی اس وقت کوئی بھی اس کی مدد کونہیں پہنچا ، اور ایسا عبرت ناک انجام ہوا کہ الامان الحفیظ کیا مسلم ممالک کے حکمران بھی اسی دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب خدا کی بے آواز لاٹھی ان پر چلے گی۔