یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک بنیا بے حد غریب تھا اس کو غریب ہونے کی وجہ سے پرسو بلاتے تھے۔ کچھ دنوں بعد کاروبار کی ترقی ہونے لگی تو پرسوسے لوگ پرسا بلانے لگے چند سالوں بعد جب اس نے غریب کا خون نچوڑ لیا اور مال دار لوگوں میں شمار ہونے لگاتو لوگ اس کو پرس رام بلانے لگے۔اسی پر کسی نے کہا کہ پیسے کہ ہیں تین نام پرسو ۔پرسا ۔پرس رام۔ اسی طرح پنجاب حکومت نے بھی ٹی ایم اوکو رقم کھانے کیلئے تین نام دیئے ہیں ۔اتوار بازار، سستا بازار اور رمضان بازار۔ ذراسوچئے ! کہ رمضان بازاروں میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔
کسی چیز کی کوالٹی بہتر نہیں ۔افسران صرف رمضان بازاروں کے چکرلگانے اور پٹرول اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے جتنا بل ایک ماہ رمضان کا بنایاجاتا ہے اس رقم کا آدھا حصہ بھی خرچ نہیں ہوتا ان تمام چیزوں پر بے جا حکومتی اخراجات کا عوام کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ایک مہینے کیلئے ٹینٹ وغیرہ جو کرائے پر لئے جاتے ہیں اگر اس کا کرایہ ایک ماہ کا دیکھا جائے تو آدھی قیمت میں اتنے ہی ٹینٹ نئے آسکتے ہیں۔
حکومت پنجاب کو چاہئے تھا کہ ٹینٹ کرایہ پرلینے کی بجائے ٹینٹ وغیرہ خرید کئے جاتے اور یہ ٹی ایم او کی ملکیت تصور ہوتے اور کسی مشکل وقت میں جیسے سلاب، زلزلہ وغیرہ میں ان لوگوں کی امداد کی جاتی جو اس آفت سے متاثر ہوتے۔مگر بات پھر وہی آکر رُک جاتی ہے کہ اگر حکومت عوام کی ترقی کیلئے سوچ لے تو محکمے کہاں سے کھائیں گے۔
اکثر رمضان بازاروں میں دیکھا گیا ہے کہ جرنیٹر پورے مہینہ کیلئے کرایہ پر لیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس میں پٹرول ڈالنے کی کاغذی کاروائی کی جاتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جرنیٹر رمضان بازاروں میں لایا جاتا ہے لیکن ایک گھنٹہ بھی نہیں چلایا جاتا اور جرنیٹر کا پٹرول سرکاری افسران کی ذاتی گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔
Punjab Government
حکومت پنجاب نے رمضان آٹا کیلئے پانچ ارب کی سبسڈی دی ہے۔یہ پانچ ارب روپے بھی غریب کے کسی فائدہ میں نہیں ہیں ۔کیونکہ رمضان بازاروں میں جوآٹا آتا ہے وہ نہایت ہی ناقص اور گھٹیاترین کوالٹی کا ہوتا ہے ۔دیہاتی رمضان بازاروں میں اگر گندم رکھ دی جائے اور اسے سستے داموں فروخت کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ دیہاتی لوگ چکی کا پسا ہواآٹا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
محکمہ ویٹرنری کا بھی رمضان بازاروں میں خوب لوٹ مار ہوتی ہے ۔کسی گوشت فروش کی کوالٹی کو چیک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوالٹی مہر لگائی جاتی ہے۔قصاب حضرات ان رمضان بازاروں میں خوب مال کماتے ہیں۔لاغر اور بیمار جانوروں کا گوشت بیچا جاتا ہے۔
یہاں دیہاتی اور شہری علاقوں میں ریٹ لسٹ پر فرق قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ دیہاتی علاقوں میں سبزیاں مقامی طور پر پیدا ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کی جاتی ہیںاورریٹ لسٹ شہری بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں جس سے سبزیاں بھی مہنگی ہوجاتی ہیں۔
آخر میں بات پھر وہی آکر رُک جاتی ہے کہ اتنے اخراجات اور رمضان کے نام پر حکومتی بینروں پر لاکھوں روپے کے خرچ سے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے ۔میں آپ کوایک مشال واںبھچراں رمضان بازار کی دیتاہوں کہ تقریباً 5 یا 6 محکموں کے 50 سے 60 اہلکار موجود ہوتے ہیں اور ہر اہلکار اپنی دیہاڑی کے چکر میں ہوتا ہے۔واںبھچراں رمضان بازار میں لاکھوں روپے مالیت کے ٹینٹ لگائے گئے ان سے غریب کو کیا فائدہ ہوگا۔
تمام چھابڑی فروش اور پھٹے والوں کو سایہ تو فراہم کر دیا گیا ہے اس سے وہ دوکاندار جو پہلے سارا دن دھوپ میں کھڑا ہوتا تھا اس کے صبح ،دوپہر اورشام کے ریٹ الگ ہوتے تھے اور گرمی کے مارے دوپہر کو سبزی اور فروٹ کے ریٹ کم کئے جاتے تھے تاکہ مال جلدی ختم کرکے چھابڑی فروش گھر چلاجاتا تھا لیکن اب حکومت پنجاب نے ان کو سا یہ فراہم کردیا ہے۔مال بکے نہ بکے ریٹ کم نہیں ہوگا۔
رمضان باز اروں میں جب تمام کھوکھہ اور چھابڑی فروشوں کو ایک جگہ اکھٹا کیا جاتا ہے تو ریٹ اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ہونا تو یہ چایئے تھا کہ پہلے کی طرح جہاں جہاں یہ لوگ کھڑے یا بیٹھے تھے وہیں رہتے اورعوام وہیں جاکر خریداری کرتی۔
اس سے عوام سستے داموں چیز یں خرید سکتی تھی ۔حکومت فوری طور پر رمضان بازاروں کو ختم کردے اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کو ٹارگٹ دیا جائے کہ کسی دوکاندار کو من مانی نہ کرنے دی جائے۔تاکہ غریب عوام دنیاوی پریشانیوں سے ہٹ کر رمضان کا مہینہ سکون اور عبادت میں گزار سکیں۔
Rana Zeeshan Asghar
تحریر : رانا محمد ذیشان اصغر 0300-4837211 ranazeeshan210@gmail.com