کراچی کے میگا پراجیکٹس اور فوج

Karachi

Karachi

کراچی (جیوڈیسک) کراچی میٹرو اسٹیشن کی شائع ہونے والی ایک تصویر جس کا کیپشن تھا اب کون شخص باہر آئے گا؟ اس کیپشن کے ذریعے گورنر ہاﺅس میں کراچی کے میگا پراجیکٹس کے لیے ہونے والی میٹنگ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

اس اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ، شہری حکومت کے نمائندگان، کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رﺅف اختر فاروق اور حیرت انگیز طور پر کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل سجاد غنی نے بھی شرکت کی تھی۔

یہ اجلاس میں شہر کے لیے تین بڑے منصوبوں جن میں کراچی سرکلر ریلوے، گریٹر کراچی سیوریج پلان ایس تھری اور کے فور واٹر سپلائی پراجیکٹ شامل تھے، پر غور کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ملیر ایکسپریس وے اور لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر بھی اس اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھی۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی رﺅف فاروقی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے صوبائی اور شہری حکومتوں کے نمائندگان کی جانب سے یاد دلانے پر ان منصوبوں کی لاگت کے ساٹھ فیصد فنڈز دینے کا وعدہ کیا تھا، تاہم نئے بجٹ میں وفاق کے وعدے کا عکس نظر نہیں آتا، یہی ہمارا مشترکہ اجلاس بلانے کا بنیادی مقصد تھا۔

جب یہ پوچھا گیا کہ آخر کور کمانڈر کی اس طرح کے اجلاس میں موجودگی کی کیا ضرورت تھی، تو ان کا کہنا تھا “ہمیں توقع ہے کہ فوج وفاقی حکومت پر اپنے مالی وعدے پورے کرنے کے لیے کچھ دباﺅ ڈالے گی، ہم اپنے شہر کو ترقی دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا پڑے گا، کریں گے۔

ماحولیاتی رضاکار رولانڈ ڈی سوزا کے مطابق “یہ کوئی نئے منصوبے نہیں، یہ کافی عرصے سے زیرِ التواء ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ فوج نے انہیں مکمل کرنے کے لیے دباﺅ ڈالنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ منصوبے میرٹ پر ہیں، پاکستانی حکومتیں منصوبوں پر تو بہت توجہ دیتی ہیں مگر طویل المعیاد منصوبہ بندی ان کے پیش نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا “فوری نوعیت کے منصوبوں سے سرمائے اور سیاسی اثر میں اضافہ ہوتا ہے، اور اخبارات میں حکومت کے نام کے ساتھ کامیابیوں کی فہرست بھی منسلک ہوجاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ شہری ترقیاتی منصوبے اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بن جاتے ہیں، یہاں متعدد طاقتور عوامل ہیں، جو رسمی یا غیر رسمی طور پر کراچی کے وسائل کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، خاص طور پر ریئل اسٹیٹ کا معاملہ، زمینوں پر کنٹرول کی جنگ تو براہ راست سیاسی چھتری کے نیچے ہوتی ہے۔

ایک ترقیاتی ماہر کا کہنا ہے “فوج سپرہائی وے پر تیرہ ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے ڈیفینس ہاﺅسنگ اتھارٹی فیز 9 اور 10 سے منسلک شہری انفراسٹرکچر کی ترقی میں دلچسپی رکھتی ہے، جو فی الحال مکمل طور پر سٹے کی سرمایہ کاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ‘ملیر ایکسپریس وے بھی اسی طرح کے مقاصد کے لیے تعمیر ہورہی ہے، جس سے زمینوں کی قدر میں اضافہ ہوگا، حالانکہ شہر کو اس ایکسپریس وے کی ضرورت نہیں۔

کراچی میں فوج کے سب سے سنیئر نمائندے کور کمانڈر ڈی ایچ اے ایگزیکٹو بورڈ کے بھی سربراہ ہیں، دو نئے فیزز کو نکال دیا جائے تو ڈی ایچ اے کراچی لگ بھگ نو ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا علاقہ ہے، جبکہ شہر کے اندر فوج کے زیرانتظام چھ
کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔

یہ ادارہ شہر کے پانچ فیصد رقبے کا مالک ہے اور یہ سب بہت قیمتی زمینیں ہیں، یہ چیز انہیں شہر کے رئیل اسٹیٹ اور اس سے منسلک سیاست کا ایک مرکزی کردار بنا دیتی ہے۔

سماجی ماہر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے “جہاں بھی فوج موجود ہوتی ہے، اس کے اندر ایک اک انچ کرکے اپنی زمین کو توسیع دینے کی عادت ہوتی ہے، اور اس کا نتیجہ ہمیشہ سیاسی طور پر حکمران سویلین اتھارٹی سے ملی بھگت کی شکل میں نکلتا ہے، اس کے علاوہ سندھ حکومت کمزور ہے اور وہ جی ایچ کیو کے ساتھ چاہتی ہے۔

دوسری جانب ایک فوجی ترجمان نے بتایا ہے کہ کور کمانڈر کی اس اجلاس میں موجودگی دراصل حکومتی نمائندگان کے لیے یہ یقین دہانی تھی کہ فوج ان میگا پراجیکٹس کے لیے نیشنل لاجسٹکس سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ذریعے سہولیات فراہم کرنے کی خواہشمند ہے۔ انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ فوج کسی بھی طرح وفاقی حکومت پر اپنے مالی وعدے پورے کرنے کے لیے دباﺅ ڈالے گی۔