پیشہ وارانہ تعلیم

Universities

Universities

جرمن میں اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں کی انتظامیہ اپنے معاملات میں خود مختار ہیں اور اپنے تربیتی پروگراموں میں یونیورسٹیوں کے قطعاً پابند نہ ہیں۔اگرچہ مضامین کا نصاب وہی ہوتا ہے جو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے تاہم اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں میں اس بات کا بھی بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ تدریس کے لیئے ایسے اساتذہ منتخب کئے جائیں جنہیںاپنے متعلقہ مضامین میں مہارت اور عبور حاصل ہو ۔ان کالجوں کے طلباء کو کالج میں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کالج سے باہر متعلقہ شعبوں اور اداروں میں عملی تربیت بھی کرائی جاتی ہے۔

اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیت کے کالجوں کے لئے مضامین اور نصاب کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر لیا جاتا ہے ۔اور نصاب اسطرح مرتب کیا جاتا ہے جو عملی ضروریات اور وقت کے تقاضے پورے کر سکے ۔ان کالجوں میں نظر ی تعلیم کے مقابلے میں عملی تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کالج میں تعلیم و تربیت کے علاوہ طلباء کو قانون اور مخصوص منصوبوں کی جگہ لے جاکر ان سے عملی کام کروایا جاتا ہے تاکہ ان کی تربیت ہر پہلو سے مکمل ہو جائے ان کالجوں کی ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ ان کے کورسوں کا دورانیہ نسبتاً کم یعنی تین سے ساڑھے تین سال مدت کا ہوتا ہے البتہ باڈن ورٹیمبرگ اور باویریا میں اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں میں کورس کی تکمیل کی مدت زیادہ ہے۔

لیکن وہاں بھی یہ مدت عموما ًچار سال ہے ۔ان کالجوں کا نصاب یونیورسٹیوں کے نصاب سے مختلف ہوتا ہے اور کورس دو مرحلوں میں مکمل ہو تا ہے ۔طلباء کو اسپیشالائزیشن کے لئے مضامین منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے جس میں طویل تحریری پرچے ہوتے ہیں جن کے بعد طلباء کو زبانی امتحان کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے کامیاب امیدواروں کو ان کے مضامین اور شعبے کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

Technology

Technology

بعض پہلوئوں سے یہ کالج ،پولی ٹیکنیکل اداروں سے مماثلث رکھتے ہیں اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں میں مقررہ کورس کی تکمیل کے بعد بعض کالجوں میں چند مخصوص مضامین میں مزید اسپیشلائزیشن کے سلسلے میں عموما ایک سال مدت کا ایک اور کورس کرایا جاتا ہے یہ کورس ڈیٹا پروسیسنگ،ایٹمی ٹیکنالوجی ،ٹراپئیکل ٹیکنالوجی ،ماحول کے تحفظ اور انجیئنروں کے لیے معاشیات جیسے مضامین کے بارے میں ہوتے ہیں ۔اعلیٰ پیشہ وارانہ تربیتی کالجوں کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اگرچہ ایسے سیا ستدانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

جو اس نظریئے کے حامی ہیں کہ ان کالجوں سے گریجوایشن کرنے والوں کو مزید یونیورسٹی ڈگری حاصل کئے بغیر اور تعلیم کے دورانیے سے قطع نظر ،ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا جانا چاہیے لیکن یونیورسٹیاں اس نظریئے کی مخالفت کرتی ہیں میں نے ٹیوٹا کے ایک سربراہی اجلاس میں جس کی صدارت سابقہ چیئرمین ٹیوٹا سکندر مصطٰفے کر رہے تھے کچھ بڑی مفید تجاویز و آراء سے نوازا تھا جس میں میں نے خصوصی طورپر چند ایک کالج آف ٹیکنالوجیز کو خود مختار بنانے اور ایک ٹیکنیکل یونیورسٹی کا اجراء تھا لیکن ٹیوٹاکا حال یہ ہے۔

میری کسی ایک تجویز کو کامیابی نصیب نہیں ہو سکی ۔میں نے آفر دی تھی کہ مجھے بورڈ آف مینجمنٹ میں ممبر شپ دی جائے تاکہ اپنی صلاحیتوں سے ٹیوٹا کی آبیاری کر سکوں لیکن میری درخواست ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دی گئی جس ملک میں ایسی بے کار انتظامیہ ہو جسے مفت میں رضاکارملے اور وہ خاطر میں نہ لائے تو اس ملک کی اور کیا بد قسمتی ہو سکتی ہے میں نے متعدد بار کہا ہے کہ ڈی اے ای کے میعار کو بڑھانے کے لئے ان کورسسز کو انگلش میڈیم بنایا جائے اور امتحانی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں کسی نے بھی ابھی تک کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا ۔عملی امتحانات کاا نعقاد اداروں کے سپرد کر کے امتحانی نظام کو دو نمبر بنا دیا گیا ہے۔

ہر ادارہ اپنے طلباء کو زیادہ سے زیادہ مارکس دے کر اپنا رزلٹ شاندار بنانے کی سعی کرتا ہوا نظر آتا ہے میٹرک میں تھرڈ ڈویژن لینے والے طلبہ D.A.Eمیںہائی فرسٹ ڈویژن لے جاتے ہیں۔جبکہ سرکاری کالجوں کے سکالرشپ ہولڈر طلباء تھوڑے نمبروں میں پاس ہوتے ہیںکیا بات ہے میرے دیس کے ٹیکنیکل بورڈز کے بھونڈے نظام کی کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ۔جرمن پیشہ وارانہ کالجز کے نظام بارے پڑھ کر میرا دل کرتا ہے۔

میرے دیس میں بھی ایسا نظام فروغ پائے مگر نہیں ہو سکا شائد صدیوں تک نہ ہوسکے جہاں کے حاکم لاہور کو جنت بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے میں لگے ہوں وہاں پیشہ وارانہ تعلیم کا خداہی حافظ ۔میں نے معتدد بار فنی تعلیمی نظام اور امتحانی نظام بارے کالم تحریر کئے ہیں لیکن افسوس صد افسوس ابھی تک اصلاحی امور ندارد ہیں ہم نے کچھ بھی نہیں کیا جبکہ دو جنگوں کی شکست خوردہ قوم نے دنیا کی معشیت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور خود کو ایک سپر قوم کے طور پر پیش کیا ہے ہمارے ہنرکاری کے متعدد ادارے جرمن کے فنی و مالی تعاون کے مرہون منت رہے ہیں۔

مجھے ایسالگتا ہے کہ ہم اگلی صدی میں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ایک بار پھر میں ٹیوٹا انتظامیہ پر زور دوں گا کہ وہ ڈی اے ای کے کورسسز کو انگلش میڈیم بنائیں تین سالہ ڈپلومے کو چار سال کاکر کے ایسوسی ایٹ ڈگری کا درجہ دیں۔ٹیکنیکل یونیورسٹی کا فوری اجراء کر کے ٹیکنالوجسٹ کی پیدوار شروع کی جائے پرائیوٹ ٹیکنیکل اور پیشہ وارانہ کالجز کی نگرانی کے لیے ضلعی آفیسروں کو خصوصی اختیارات سونپے جائیں پرائیوٹ اداروں میں غدر مچا ہوا ہے۔

میرے علم میں ایک ایسا ادارہ بھی ہے جہاں گزشتہ ایک سال سے صرف ایک انسٹرکٹر پورے کالج کا نظام سنمبھالے ہوئے تھا کئی ایک ایسے ادارے ہیں جہاں کسی قسم کا ریکارڈ تیار نہیں کیا جاتا ۔تنخواہوں کا رجسٹرنہ حاضری رجسٹر پرنسپل کے بغیر چلنے والے اداروں کا کبھی کسی اتھارٹی نے نوٹس نہیں لیا۔رجسٹریشن ایک ٹیکنالوجی کی جبکہ سینکڑوں غیر متعلقہ کورسسز کا اجراء کیا جاتا ہے جب تک پرائیوٹ کالجز نظام کی مانیٹرنگ کا عمل جاری نہیں ہوگا پیشہ وارانہ تعلیم کا بیڑہ غرق ہی رہے گا۔

Maqsood Anjum

Maqsood Anjum

تحریر ۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ