آپریشن ضربِ عضب آج کل خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کافی پرانا ہے۔ایک وقت تھا کہ پی پی پی اس آپریشن کو کرنے کے لئے ذہنی طور پر فیصلہ کر چکی تھی لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے اس اپریشن کو موخر کر دیاگیا تھا۔
ایس پی آر کے سابق ترجمان کا اقرار کرنا کہ ۲۰۱۰ میں فوجی ایجنسیوں نے اپریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دوسری اعلی فوجی قیادت نے اس اپریشن پر عمل کرنے میں پس و پیش سے کام لیا نجس کی وجہ سے دھشت گرد مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ اگر یہ اپریشن بر وقت ہو جاتا تو شائد وہ قومی نقسان جو ہمیں دھشت گردوں کے ہاتھوں اٹھا نا پڑ رہا ہے اس سے قوم بچ جاتی۔اب اتنے سال گزر جانے کے بعد ۲۰۱۴ میں اسی تجویز کی روح کے مطابق اپریشن پر عمل در آمد ہو رہا ہے۔
دراصل اس قت مسلم لیگ (ن) ، مذہبی جماعتیں اور عمران خان اپریشن کے مخالف تھے اور اسے امریکی منشا کا شاخسانہ کہہ رہے تھے جس کی وجہ سے پی پی پی کے لئے اپریشن کرنا ممکن نہیں تھا۔سوات اپریشن جس طرح کامیابی سیہمکنار ہوا تھا وزیرسان اپریشن بھی اسی طرح کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا لیکن شرط یہ تھی کہ اسے رو بعمل تو لایا جاتا۔پی پی پی بھی گو مگو کی کیفیت مین تھی کیونکہ پارلیمنٹ میں اس کی عددی قوت بڑی کمزور تھی اور اسے اپنے ا تحا دیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی اشد ضرورت تھی جو اس اپریشن کے حق میں نہیں تھے اور اپریشن کی صورت میں وہ حکو مت سے علیحدگی اختیار کر سکتے تھے جس کی وجہ سے اپریشن کو موخر کر دیا گیا تھا۔کراچی ائر پورٹ پر دھشت گردی کے بعد اپریشن ناگزیر ہو گیا تھا کیونکہ فوجی قیادت اب اس طرح کی کاروائیوں کو مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
میاں برادران ہمیشہ سے تحریکِ طالبان کے حامی رہے ہیں اور تحریکِ طالبان سے مذاکرات بھی انہی تعلقات کا منہ بولتا ثبوت تھے حالانکہ دھشت گردوں سے مذاکرات نہیں کئے جاتے بلکہ طاقت کے بل بوتے پر انھیں ریاست کے سامنے سرنگوں کیا جاتا ہے اور جو ریاست اور اس کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا اور بے گناہ اور معصوم انسانوں کا بے رحمانہ قتلِ عام کرتے ہیں تو انھیں اگلے جہاں کا راستہ دکھایا جاتا ہے تا کہ دوسرے شہری پر امن زندگی بسر کر سکیں۔بہر حال حکومت اورتحریکِ طالبان کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی کیونکہ تحریکِ طالبان نے کراچی ائر پورٹ پر حملہ کر کے مذاکرات کے سارے راستے بند کر دئے تھے لہذا اپریشن ہی آخری راستہ رہ گیا تھا۔اس اپریشن کے مضمرات پر تو کچھ وقت کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی اپریشن کے ابتدائی ایام میں سب کچھ اچھا ہے کی نوید سنائی جاتی ہے اور اپریشن ضربِ عضب کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کئے جا رہے ہیں ۔اس اپریشن کی کامیابی پر پاکستان کی بقا کا دارو مدار ہے لہذا پوری قوم اس اپریشن کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چا ہتی ہے۔ یہ ایسا اپریشن ہے جس پر ہماری آئیندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔اب یہ فیصلہ ہو جانا چائیے کہ پاکستان دھشت گردوں کا ملک ہے یا اس میں امن پسند لوگ مقیم ہیں۔دھشت گردوں کو جڑ سے اکھار پھینکنا ہر پاکستانی کی خواہش ہے اور پاک فوج پاکستانیوں کی خواہشات کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہی ہے۔
Terrorists
قابلِ فخر ہیں وہ سپوت جو وطن کی حرمت کی خا طر اپنا لہو بہا رہے ہیں تا کہ ہم امن،سکون اورعافیت میں زندگی گزار سکیں اور ہمیں دھشت گردوں کا خوف نہ ستائے ،ہمارے بچے ڈر اور خوف کا شکار نہ ہوں اور وہ اس آگ کے شعلوں سے محفوظ رہیں جسے دھشت گروں نے بھڑ کا رکھا ہے ۔اپنے لختِ جگروں کو موت کی وادی میں بھیجنا بڑا ہی جان لیوا مرحلہ ہوتا ہے لیکن دھن ہیں وہ مائیں جو وطن کی حرمت کی خاطر اپنے جواں سال بیٹو ں کو اس مشن پر روانہ کرتی ہیں اور پھر ان کی شہادت کے بعد ساری عمر ان کی جدائی میں لمحہ لمحہ جیتی اور مرتی رہتی ہیں۔۔۔۔مسلم لیگ (ن) آج کل صرف ایک ہی بات کا شور مچا رہی ہے کہ اپریشن ضربِ عضب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ قوم میں یکجہتی اور اتحاد ہو تا کہ دشمن کو شکست دینا آسان ہو جائے لہذا ساری سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر حکومت کا ساتھ دیں۔ٹھیک ہے قوم میں یکجہتی ہونی چائیے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپریشن ضربِ عضب کی آڑ میں اپنے مخالفین کو گولیوں سے بھون دیا جائے اور شب کی تاریکی میں ایک علمی درسگاہ پر محض اس وجہ سے یلغار کر دی جائے کہ وہ مخالف سیاسی جماعت کا ہیڈ کوار ٹر ہے۔اس یلغار میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں اور بیماروں کو بھی معاف نہ کیا جائے بلکہ جو سامنے آئے اس کا کام تمام کر دیا جائے ۔کیا قومی یکجہتی لانے کا یہی طریق ہے جس کا تقاضہ مسلم لیگ پاکستانی قوم سے بار بار کر رہی ہے۔مخا لفین پر اندھا دھند گولیاں برسانے سے یکجہتی نہیں آتی بلکہ یکجہتی مخا لفین کو گلے لگانے سے آتی ہے اور مسلم لیگ (ن) گلے لگانے نہیں بلکہ گلے کا ٹنے سے یک جہتی کے خواب دیکھ رہی ہے۔اس طرح کی سفاکیتکا مظاہرہ جلیانوالہ باغ میں دیکھا گیا تھا جس میں جنرل دائر نے وہاں جمع ہونے والے ہجوم پر بغیر وارننگ کے گولی چلانے کا حکم صادر کیا تھا۔نہتے معصوم اور بے گناہ لوگ مرتے رہے اور جنرل ڈ ائر ان کی آہ و بکاہ اور چیخ و پکار کو سگار کے دھویں میں اڑا تا رہا لیکن تاریخ میں ایک گالی کی صورت میں باقی رہا۔
ادارہ منہاج القرآن سیکر یٹریٹ میں جن لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟کیا وہ محبِ وطن نہیں تھے؟ کیا وہ وطن کا درد نہیں رکھتے تھے ؟ کیا و ہ خاکِ وطن پر خود کو نچھاور کرنے والے نہیں تھے؟ سچ تو یہ ہے کہ وہ وطن کی آبرو تھے اور اس دن وطن کی آبرو کو مٹی میں ملایا گیا تھا ، اسے ذبح کیا گیا تھا اور اس کی حرمت پر جان دینے والوں کو لہو میں نہلایا گیا تھا۔ابھی تک کوئی یہ نہیں جان سکا کہ یہ سارا ڈرامہ کیوں رچایا گیا تھا ؟ اس فعل کے بعد جمہوریت اور آمریت میں خطِ امتیاز کھینچنا مشکل ہو گیاہے کیونکہ اس طرح کا گھناؤنا فعل فرعونیت میں تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن جمہوریت میں نہیں۔کیا یہی جمہوریت ہے کہ رات کو اگر کوئی ڈراؤ نا سپنایکھ لیا جائے تو اس سپنے میں شامل افراد کو راتوں رات ہی موت کی نیند سلا دیا جائے۔حکومت کا ا ولین مقصد اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنا اور انھیں تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن یہ کیسی حکومت ہے جو سکون سے سونے والوں کو موت کے ھوالے کرتی ہے اور پھر جو قتل ہوئے ہیں ا نہی پر جھوٹے مقدمے بھی دائر کرتی ہے۔حضرت علی نے کہا تھا (کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا) اور میاں برادران کی حکومت ظلم کی حکومت ہے کیونکہ انھوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ وہ مقامِ انسانیت سے بہت نیچے گر گئے ہیں۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور حکومتی خا ندان بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن دامن پر لگے ہوئے خون کے دھبے کبھی نہیں مٹتے۔میاں برادران نے جو خون اپنے لباس پر سجا لیا ہے یہی خون ان کے زوال کا آغاز بنے گا کیونکہ بے گناہوں کے خون کی پکار کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔میاں شہباز شریف کو اس غیر انسانی حرکت پر فی الفور مستعفی ہو جانا چائیے کیونکہ اب اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے لت پت ہیں اور خون سے لت پت ہاتھ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے کے اہل نہیں ہوتے۔غرور کا سر نیچا ہو تا ہے ایک کہاوت ہی نہیں بلکہ ایک سچ ہے اور ہم نے اپنی آنکھوں سے غرور کے پیکروں میں سجے سروں کو رسوا ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ڈا کٹر پیرزادہ قاسم کی شعرہ آفاق غزل کے دو شعر لکھ رہا ہوں جو اس واقعے کے پیچھے چھپے غرور تمکنت کو نہ صرف آشکار کر دیں گئے بلکہ اس میں پنہاں بربریت کو بھی ننگا کر دیں گئے ۔۔۔گاہے گاہے وحشت میں گھر کی سمت جاتا ہوں۔،۔،۔اس کو دشتِ و حشت سے واپسی نہ سمجھا جائےخاک کرنے والوں کی کیا عجیب خوا ہش ہے۔،۔،۔خاک ہونے والوں کو خا ک ہی نہ سمجھا جائے۔