کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے رینجرز کے ہاتھوں گرفتار طالب علم کی جے آئی مرتب نہ کرنے پر رینجرز کے لا آفیسر پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سندھ اور دیگر کو 17 جولائی تک طلب کرلیا۔
جمعے کو سماعت کے موقع پرسماعت کے دوران ایس پی ساؤتھ نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کی جانب سے گرفتار طالب علم حنیف رانا کی جے آئی مرتب کرنے کے لیے کوئی خط نہیں ملا جس پر عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے رینجرز کے لا آفیسر ضیا جنجوعہ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رینجرز کے اس رویے کی وجہ سے مجبوراً عدالت کو ایسا آرڈر پاس کرنا ہوگا جس سے پورے ملک میں رینجرز کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے
تمام سیکیورٹی اداروں کے پاس جاسوسی کا خاص نظام موجود ہے تو معصوم لوگوں کو کیوں گرفتار کیا جارہا ہے ،گرفتار ملزمان کے خلاف اگر کوئی ثبوت نہیں تو پھر کس قانون کے تحت انہیں 90دن کے لیے نظر بند کردیا جاتا ہے، 90 دن کی نظر بندی آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 کی خلاف ورزی ہے، عدالت کے روبرو پولیس اور رینجرز کے جھوٹ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل جاوید چھتاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں تین متوازی قوانین چلے رہے ہیں جن میں ایم پی او 1960ءایکٹ ،تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ءاور دہشت گردی ایکٹ E11 شامل ہیں،ان تینوں قوانین کے تحت کسی بھی شہری کو 90 دن کے لیے نظربند کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی اس طرح کی کارروائیاں عوام الناس کے اعتماد کو شدید متاثر کرتی ہیں ،پولیس اور رینجرز کی الگ الگ سمت میں دوڑ عوام میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کا سبب بن رہی ہے جس سے ریاست کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ 90د ن کی نظر بندی کس قانون کے تحت کی جارہی ہے۔