سید یوسف رضا گیلانی پاکستان کی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کی ہربات قابل غورہے۔کیونکہ یہ پاکستان کے سابق وزیراعظم بھی ہیں۔اورملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین بھی ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ پرویز مشرف کو پیپلزپارٹی کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونیوالے معاہدے کے تحت محفوظ راستہ دیا گیا تھا۔ معاہدے کے وقت اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے اسٹیبلشمنٹ کے ہونے والے مذاکرات میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ نواز شریف کو اس کی پاسداری کرنی چاہئے تھی۔ جنرل کیانی آپریشن کے وقت کا تعین خود کرنا چاہتے تھے اس لئے ہم نے ان پر یہ معاملہ چھوڑ دیا۔ جب معاہدہ ہوچکا تھا تو نوازشریف کو ان کے خلاف قدم نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے احتجاج کے نتیجے میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پیپلزپارٹی کسی بھی غیرجمہوری سازش کا حصہ نہیں بنے گی۔ حکومت نے پارلیمنٹ پر توجہ نہیں دی اگر پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو ملک کے تمام ادارے مضبوط ہوں گے۔ آج جو لولی لنگڑی جمہوریت نظر آرہی ہے وہ پیپلزپارٹی کی مرہون منت ہے۔
بھوربھن معاہدے کے دوران پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کرنے کی بات ہوئی، آصف زرداری، نواز شریف اور تمام سیاسی قوتوں نے پرویز مشرف کے مواخذہ کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے مجھ سمیت نوازشریف سے رابطہ کیا تھا مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ اگر پرویز مشرف استعفیٰ دے دیتے ہیں تو انہیں محفوظ راستہ دے دیا جائے گا اس لئے جب پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو ہم نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ وہ پرویز مشرف کے حق میں نہیں یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ مشرف کی مدد کریں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ وعدوں کو پیش نظر رکھا جائے۔ پی پی پی اداروں کا احترام کرتی ہے ان کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے آمریت کا مقابلہ کرکے جمہوریت کو بحال کیا ۔ شمالی وزیرستان آپریشن پر حکومت نے آج تک قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جب آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی تو تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مینڈیٹ دیا تھاکہ وہ مذاکرات یا آپریشن کریں ملک میں امن قائم ہونا چاہئے۔
سید یوسف رضاگیلانی نے کہا میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی کارروائی 12 اکتوبر 1999ء سے ہونی چاہئے۔صرف محاذ آرائی سے ملک کو نقصان ہو گا، 1980ء سے1990ء والی سیاست نہیں ہونا چاہئے، اس سے جمہوریت غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ کراچی میں فوج تعیناتی کی ضرورت نہیں ہے، معاملات سول حکومت بہتر طریقے سے حل کر سکتی ہے۔ آئی جی سندھ کی تعیناتی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ فرینڈلی نہیں بلکہ ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نواز شریف 2008ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے تاہم آصف علی زرداری نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے قائل کیا۔
نئے صوبے بنانے کے سوال پر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ صوبے بنانا کوئی جرم نہیں، بھارت میں صوبے بنتے رہے ہیں، عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا تو بنگلہ دیش نہ بنتا۔ سرائیکی صوبہ عوام کا حق ہے ہم نے صوبے کے قیام کے حق میں سینٹ کی حمایت حاصل کرلی تھی، قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی۔ پارلیمنٹ کی مدت 4 سال کرنے کی اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی تجویز درست ہے۔ ہم جب حکومت میں تھے پارلیمنٹ میں ترمیم لانا چاہتے تھے تاہم مسلم لیگ اس وقت اپوزیشن میں تھی جس نے موقف اختیار کیا کہ ہمارے اقتدار کی مدت کم کرنے کے لئے ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اغوا ہونے والے بیٹے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، وہ نگراں دور میں اغوا ہوئے تھے، موجودہ حکومت کا کام ہے اسے بازیاب کرائے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی۔ آصف علی زرداری نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو دو چوائس دی تھیں کہ مشرف استعفیٰ دیں یا مواخذے کیلئے تیار ہو جائیں۔ ہمارا مقصد مشرف کو ہٹانا تھا۔ اس موقف کے بعد مشرف نے حالات کو دیکھ کر استعفیٰ دیدیا۔ یوسف رضاگیلانی کا بیان سن کر خود بھی حیرانی ہوئی۔ ان کابیان سیاق وسباق سے ہٹ کر ہے۔ پیپلزپارٹی کی مشرف سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی۔
Pervaiz Rasheed
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے اگر کوئی معاہدہ کیا ہے تو اس کی پابندی کریں، ہم نے کسی وعدے کی ذمہ داری نہیں لی۔ آصف زرداری بھی مشرف کے مواخذہ پر آمادہ تھے۔ مواخذہ سے بچنے کیلئے ہی مشرف نے استعفیٰ دیا، ہم آئین کے ایک ایک لفظ کے محافظ ہیں، کسی وعدے میں شامل تھے نہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ 3 نومبر کا اقدام آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو ہر شہری کو عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔
عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بیگناہ شہری ہے یا مجرم۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے ڈیل کی کوشش کی لیکن مسلم لیگ ن نے اسے مسترد کردیا۔ ہم پیپلز پارٹی کے دور کی کسی ڈیل کا حصہ بھی نہیں رہے،پرویز مشرف کے بارے میں عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں منظور ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ سچ کبھی ناکبھی زبان پر آ جاتا ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)سیدیوسف رضاگیلانی کے بیانات کی تردید نہیں کرتے توحقیقت قوم کے سامنے نہ آتی۔کہ معاہدے کے تحت محفوظ راستہ سے پاکستان میں جمہوریت آئی ۔حکمران ایک سچ کودوفن کرنے کیلئے ہر روز ہزاروں جھوٹ بولتے ہیں۔کہ سچ سے معاہدوں کی پاسداری کرنا پڑے گی۔