پاکستان (جیوڈیسک) پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی جانب سے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے ٹرائل کی مخالفت کے بیان سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی پی مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے حق میں تھی۔
پی پی پی کے سیکریٹری انفارمیشن قمرزمان کائرہ جنرل مشرف کو آج جن حالات کا سامنا ہے وہ اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ جب انہوں نے مفاہمت کو ختم کر کے اور ملٹری کی مخالفت کے باوجود وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو اب انہیں آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سابق وزیراعظم گیلانی نے جمعے کو اس وقت ایک بیان میں نئے تنازعے کو جنم دیا جب انہوں کہا کہ ان کی حکومت نے 2008 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے تحت مشرف کے استعفیٰ اور ملک سے باہر جانے کا معائدہ طے پایا۔
گیلانی نے دعویٰ کیا کہ مشرف کو مواخذے کی کارروائی کے بجائے مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مسلم لیگ ن بھی شامل تھی۔ سابق وزیراعظم نے مسلم لیگ ن کے پرویز مشرف کے ساتھ موجودہ رویے کو بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ مسلم لیگ ن کو اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طے پانے والی تفصیلات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
قمرزمان کائرہ نے اس حوالے سے میڈیا میں استعمال ہونے والے لفظ “معائدے” پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت چار جماعتوں جن میں پی پی پی ، مسلم لیگ ن، اے این پی اور جے یو آئی ف میں معائدہ نہیں بلکہ ایک مفاہمت ہوئی تھی کہ مشرف کو استعفے کے بعد ملک چھوڑنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
گیلانی کے دور حکومت میں وزیر اطلاعات رہنے والے کائرہ نے دعویٰ کیا کہ اس وقت سابق فوجی ڈکٹیٹر کے آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کے حوالے سے نہ تو کوئی مفاہمت ہوئی نہ ہی کوئی بات چیت ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کا ٹرائل کرنا مسلم لیگ ن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی یوسف رضاگیلانی کے بیان کو غلط قرار دیا ہے۔
فرحت اللہ باہر نے “پرویز مشرف کو نام نہاد محفوظ راستہ دینے کے حوالے سے کسی سے بھی کوئی معائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پرویز مشرف کے خلاف چارج شیٹ تیار کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے سینئر رہنماؤں کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔
انہوں مزید کہا کہ کمیٹی میں اسحاق ڈار، احسن اقبال، رضا ربانی، شیری رحمان اور وہ خود شامل تھے۔ بابر کے مطابق اگر آپ اس وقت کے میڈیا ریکارڈ کو دیکھیں تو کمیٹی اراکین کے بیانات ملیں گے کہ وہ کیا کام کر رہے تھے۔ کمیٹی نے جنرل مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت مواخذے کی کارروائی کے لیے ایک جامع چارج شیٹ تیار کی تھی جس کی نقل آج بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
کائرہ اور بابر کے بیانات کی معمولی مخالفت کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک مفاہمت ہوئی تھی کہ مشرف کو مواخذے کے بجائے استعفیٰ دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
کائرہ کا کہنا ہے کہ اس وقت پرویز مشرف کے پاس آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت اسمبلی توڑنے کی طاقت اور ان کے پاس پی سی او جج عبدالحمید ڈوگر کی شکل میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی تھے۔ “اس وقت جسٹس افتخار چوہدری بھی نہیں تھے اور پرویز مشرف ایک مرتبہ پھر سے جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لیے کوئی اقدام کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر کو استعفے اور ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت دینا جمہوریت کی منتقلی کے حق میں بہترین فیصلہ تھا۔