تحفظ پاکستان ایکٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

 Islamabad High Court

Islamabad High Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء کیخلاف ایم این اے جمشید دستی نے ایڈووکیٹ سعید خورشید کے ذریعے درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون آئین پاکستان کی شق 4، 9 اور 10 سے متصادم ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں۔ جو کسی شخص کی نظر بندی، بغیر وارنٹ گرفتاری اور کسی الزام میں منصفانہ سماعت کا حق نہ دینے سے روکتی ہیں۔

جمشید دستی نے اس قانون کی شق تین کو بھی چیلنج کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گریڈ بیس کا افسر کسی ممکنہ بدامنی کو روکنے کے لئے طاقت کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے خدشات ہیں کہ اس قانون کو حکمران جماعت مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

پٹیشن کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے پاس گلو بٹ جیسے افراد اور حکم ماننے والے افسران کی فوج ہے جو ہر غیر قانونی حکم پر عملدرآمد کرتے ہیں اور کئی بار جعلی مقابلے کے ذریعے غیر ضروری افراد سے نجات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

اس لئے خدشہ ہے کہ حکمران جماعت کی جانب سے اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے گا۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکشن تھری کا ذیلی سیکشن (آئی) بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ قابل بھروسہ معلومات پر کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کر سکیں مگر اس بات کی وضاحت نہیں کی کارروائی کرنے والے افسران کس طرح اطلاع کے قابل اعتبار ہونے کا تجزیہ کریں گے کیونکہ پولیس کے بیشتر مخبر کسی بھی طرح گلو بٹ سے مختلف نہیں۔

جمشید دستی نے پٹیشن میں کہا ہے کہ فورسز کو کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے یا کسی بھی اجازت یا مجسٹریٹ کی عدم موجودگی میں گھروں کی تلاشی کا اختیار ہوگا جو کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس قانون کی شق پانچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اس سے پبلک پراسیکیوٹر کو الزامات یا مبینہ جرائم پیش کئے بغیر کسی بھی مشتبہ شخص کا ریمانڈ مل جائے گا جبکہ اس طرح کی مثال تو جنگی جرائم سے متعلق عدالتی کارروائی میں بھی نہیں ملتی۔

پٹیشن کے مطابق اس قانون کی شق پندرہ میں بتایا گیا ہے کہ مشتبہ شخص کے خلاف پاکستان کے خلاف جنگ یا بغاوت کا ملزم اس وقت تک سمجھا جائے گا جب تک وہ خود کو اس جرم میں ملوث نہ ہونے کا ثبوت پیش نہ کر دے اور ثبوت پیش کرنے کا تمام بوجھ مشتبہ شخص کے اوپر ڈال دیا گیا ہے جبکہ ایک مقدمے کو ایک سے دوسرے ضلع کی عدالت میں منتقل کرنے سے زیر حراست مشتبہ شخص کے لئے کسی وکیل کے ذریعے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ اس قانون میں شامل بنیادی انسانی حقوق کی مخالف شقوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ واضع رہے کہ ایم کیو ایم سمیت بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کے باوجود پارلیمنٹ کے دونوں ایوانواں نے تحفظ پاکستان بل 2014ء کی منظوری دیدی تھی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد بل ایوان صدر بھجوایا گیا۔ صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد یہ بل تحفظ پاکستان ایکٹ بن گیا ہے جو ملک بھر میں فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

ابتدائی طور پر یہ قانون دو سال کیلئے نافذ ہوگا۔ تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء کے تحت ملزم کے ریمانڈ کی مدت ساٹھ روز ہوگی۔ خصوصی عدالت کے قیام کیلئے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کی جائیگی۔ مشتبہ شخص پر فائرنگ کے اختیار کے معاملے پر سیف گارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔

کسی شخص کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری بھی ہوگی۔ تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء کے تحت اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، سرکاری املاک پر حملے کرنیوالوں اور انتہا پسندوں کیخلاف بھی کارروائی کی جا سکے گی۔