اسرائیل ایک غاصب سرطانی جرثومہ ہے جو نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر بمباری کر کے پھول جیسے بچوں کو مسلا جارہا ہے۔ بچوں،بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی اسرائیلی جارحیت اوراس کی بدترین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے مگر افسوس کہ ستاون اسلامی ممالک کی حکومتوں میں سے کسی نے آگے بڑھ کر عملی طور پر اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ انبیاء کی سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟ سب خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر کسی مسلم حکومت نے کوئی ایک آدھ مذمتی بیان دیا بھی ہے تو وہ اسی پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کا حق ادا ہو گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر قلیجہ منہ کو آتا ہے۔ امریکہ و یورپ کا میڈیا تو صیہونی مظالم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور اصل حقائق دنیا تک پہنچنے نہیں دیے جارہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم میڈیا کی طرف سے بھی اس طرح کا بھرپور کردار دیکھنے میں نہیں آیا جو انہیں ادا کرنا چاہیے تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی پہلی ترجیح اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کو اجاگر کرنا ہوتی مگر افسوس کہ جب تک جرمنی نے فٹ بال کا ورلڈ کپ جیت نہیں لیا’ یہی موضوع زیادہ زیر بحث رہا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کا فاتح کون ہوگا؟
جس دن جرمنی نے برازیل کو شکست دی تھی اسی دن غاصب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے ایک بار پھرکئی نہتے فلسطینی مسلمانوں کو خون میں نہلا دیاتھا مگر میڈیا پر جرمنی کے سات گول تو زیر بحث رہے لیکن غزہ پر اسرائیلی جارحیت بہت کم لوگوں کو یاد رہی۔اسلامی ممالک کے وہ الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا کے ادارے اور ویب سائٹس جنہیں اسرائیلی مظالم اور دہشت گردی کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا تھا ان پر بھی فٹ بال ورلڈ کپ کا بخار چھایا رہا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود فلسطینی سفیرکو بھی یہ کہہ کر اپنے دکھ کا اظہار کرنا پڑا کہ اسرائیلی فوجی ہمارے بچوں، عورتوں اورجوانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور مسلمہ امہ فٹ بال کا ورلڈ کپ دیکھنے میں مصروف ہے ۔
اسرائیلی بمباری سے اب تک سینکڑوں بچے، بوڑھے اور جوان شہید ہو چکے ہیں مگر اس کی بربریت رکنے میں نہیں آرہی ۔ تمامتر عالمی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے غزہ میں گھس کر زمینی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مساجدومدارس کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ابھی کل کی ہی بات ہے مشرقی غزہ کی الفتاح کالونی میں غزہ پولیس چیف کی رہائش گاہ پر شدید بمباری کی گئی جس میں متعدد فلسطینی بچے اور عورتیں شہید ہو گئے۔
اسی علاقہ میں جامع مسجد الحرمین پربھی اس وقت بارود کی بارش کی گئی جب وہاں تراویح کی نماز ادا ہو رہی تھی اور فلسطینی مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود تھے۔جامع مسجد الحرمین پر بمباری سے بھی سخت نقصان ہوا اور مسجد مکمل طور پر شہید ہوگئی۔فلسطین میںاسرائیلی دہشت گردی کے حوالہ سے گارڈین نے حقائق پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں ساڑھے تین سو سے زائد سابق اسرائیلی فوجیوں کے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے اعترافات کو پیش کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں فلسطینیوں کے ساتھ چیک پوسٹوں پر کئے جانے والے تذلیل آمیز رویے، فائرنگ اور حملوں کے سینکڑوں واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوجیوںنے اپنی گفتگو کے دوران ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے بتایاکہ ہمیں اوپر سے جو ہدایات ملتی تھیں ان کے مطابق ہماری ترقی اور کامیابی کا پیمانہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کی لاشیں کمانڈر کے پاس لیجائی جائیں۔ ہمیں ہمارے سینئر کی طرف سے سمجھایاجاتا تھا کہ گرفتاریوں میں وقت ضائع مت کرو ‘ اس کام میں تو برسوں ضائع ہو چکے ہیں ہمارے پاس صرف مردہ دہشت گردوں کی لاشیں آنی چاہئیں اس لئے ہم ہر رات مختلف علاقوں میں چھاپے مارتے’ فائرنگ کرتے اور ایسا ماحول پیدا کرتے جیسے ہم پر جوابی فائرنگ ہوئی ہے۔
اس دوران جو کوئی بھی ہمارے ہاتھ لگ جاتا ہم انہیں گرفتار کر لینے یا قتل کر دیتے۔ یہ ایسی صورتحال تھی کہ جس میں آپ بس دور بین سے دیکھتے رہتے تاکہ کسی کے نظر آنے پر اسے قتل کرسکیں کیونکہ یہی ہمارا کام قرار دیا گیا تھا۔گارڈین کی رپورٹ میں سابق اسرائیلی فوجیوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی اس حوالہ سے شدید ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں کہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب انہیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیاجائے گا؟ اور پھر ملازمت کے دوران ہمارا یہ عالم تھا کہ جو کوئی فلسطینی کسی ناکے پر ذرہ بھر بھی احتجاج کرتا اسے پکڑ کر چھوٹی سی جیل میں ڈال دیاجاتا اور پھر کئی کئی دنوں تک ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ ہم نے انہیں جیل میں ڈال رکھا ہے۔
رپورٹ میں اسرائیلی مظالم کے نت نئے طریقے بیان کئے گئے ہیں جنہیں سننا اور پڑھنا ایسے کسی شخص کے بس میں نہیں ہے جو اپنے دل میں انسانیت سے بھی ذرا سی بھی ہمدردی رکھتا ہے۔ بہرحال اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی پر ساری دنیا چیخ چیخ کر اسے بند کرنے کا کہہ رہی ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں مگر اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ امریکہ جیسے ملک جس نے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی علمبرداری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے’ اس نے بھی بجائے اس کے کہ اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کی جاتی الٹا یہ کہنا شروع کر رکھا ہے کہ وہ تو اپنے دفاع میں بمباری کر رہا ہے اور اسے اسے اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔
Israeli Barbarism
اسرائیلی بربریت رکوانے کیلئے او آئی سی جیسے اداروں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے بھی کوئی خاص جرأتمندانہ کردار ادا نہیں کیاجارہا جس سے چھوٹے سے ملک اسرائیل کو اس قدرشہ ملی ہوئی ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں عالم اسلام کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں ۔ اگر مظلوموں کی دادرسی ہی نہیں کرنی توستاون ملکوں کی فوجیں اور ٹیکنالوجی آخر کس لئے ہے؟اسرائیلی دہشت گردی دن بدن بڑھی جارہی ہے۔ وہ ممنوعہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس سے متاثر ہونے والوں کی لاشیںجل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے والے نام نہاد عالمی ادارے اسرائیل کی جانب سے ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر کیوں حرکت میں نہیں آرہے؟
کیوں نہتے اور معصوم فلسطینیوںکی نسل کشی کا سلسلہ نہیں روکا جارہا؟۔فلسطین کے معصوم بچے اور عورتیں آج پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی منتظر ہیں اور اس وقت کی راہیں تک رہی ہیں جب کوئی مسلم سپہ سالار فلسطین کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے،ہنستی مسکراتی بستیوں کواجاڑنے اور کیمیائی و جراثیمی ہتھیاروں کے ذریعے ان کے پیاروں کی نسل کشی کا سلسلہ بند کروائے گا اور وہ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ آخر میں سعودی عرب کو میں یہاں خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔
Abdullah bin Abdul Aziz
سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ سے نمٹنے کے لیے پچاس ملین ڈالر کی خطیر رقم غزہ میں فلسطینی ہلال احمر کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس کی تصدیق سعودی وزیر خزانہ ڈاکٹر ابراہیم بن عبدالعزیز نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ 200 ملین سعودی ریال کی اس خطیررقم سے فلسطینی زخمیوں اور بمباری سے بے گھر ہونے والے افراد کی علاج معالجے ، خوراک اور رہائش کی فوری ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام مسلم ممالک مالی امدادکی طرح مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم وستم سے نجات دلانے کیلئے بھی عملی کوششیں کریں’یہ پوری مسلم امہ پر فرض ہے۔