سانحہ ماڈل ٹائون کو ہم طاقت کی وحشت کا زوال کہہ سکتے ہیں جس میں اصل کرداروں نے اقتدار کی کھال میں چھپ کر 14بے گناہوں کی لاشیں گرائیں لیکن حسب روایت عتاب پولیس کے حصہ میں آیا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سانحے میں خوفزدگی کی سیاست کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی 2013 کے الیکشن میں شریف خاندان کو ملنے والی مبینہ جیت کی شکست کے اثرات آئے روز گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں عوام کے شعور پر فتح کے جھوٹ کو مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔
زر خرید ایک ”میر جعفر ” کے ٹی وی چینل نے 11مئی کو سہ پہر 4بجے جس جشن کا سماں باندھا وہ در اصل عوام کے حق ِ خود ارادیت کے چرائے جانے کا تماشا تھا ایک سرمایہ دار حکمران کی جس مبینہ جیت کو عوامی حمایت قرار دیا جارہا تھا محض ایک فریب تھا،ایک دھوکہ تھا یہ انتخابی نتائج افتخار چوہدری، الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے بے ہودہ فراڈ کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں ایک ایسی جمہوریت کا ناٹک جو خود ساختہ تخلیقی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے۔
میاں برادران کے حواریوں ،قلمبیچ کر نقش خیال مرتب کرنے والے اور جمہور نامے لکھنے والے میر منشیوں کیلئے کھو کھلی اُمید کا اخری موقع ہے خاندانی شہنشاہی آمریت کیلئے ناکام خواہشات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا جس میں ایک خواہش ڈی چوک اسلام آباد پر 14 اگست کو ناکام قبضے کی کوشش ہے نواز شریف کی طرف سے قوم پر مسلط آمر مشرف کی طرح جس نے 12 مئی 2007 کو کراچی میں بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیلی اور خود شہر اقتدار میں مکہ لہرا لہراکر عوامی حمایت کا ڈھنڈورا پیٹا یقینا رائے ونڈ کے حکمرانوں کو تحریک انصاف کے لاکھوں جانبازوں اور سیاسی کارکنوں کو جوابدہی کا سامنا ہے۔
جو 11 مئی 2013 کو اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی کیلئے سچی اور سر گرم جدوجہد کے جاں سوز مرحلے سے گزرے اُنہوں نے الیکشن جیت کر دکھایا یہ آپ اسے عمران کے پرستاروں کے انقلابی جوش و جذبے کا ہی نتیجہہی کہہ سکتے ہیں کہ رائے ونڈ کے شریفوں کے ہاتھ سے لاہور بھی نکل گیا۔
بھٹو مرحوم نے کہا تھا وطن عزیز میں سیاست کا آغاز جس نے لاہور سے نہیں کیا اُس کی سیاست نامکمل ہے اور جس کے ہاتھ سے لاہور نکل گیا اُس کے ہاتھ سے سیاست نکل گئی۔
المیہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر کے بعد اپنے دور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (تب اب نہیں )پر مسلط ہونے والی حادثاتی قیادت نے بجائے عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والی اپوزیشن کے ،عوام کو متحرک کرنے کے ”ایک وفادار اپوزیشن ”کا فریضہ انجام دینے پر اکتفا کیا اس طرح بھٹو مرحوم کی پارٹی نے اُن کو قتل کرنے والی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ ن کو وہ طاقت فراہم کی جو عوام کی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے کام آتی ہے۔
چنانچہ اس بات پر حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ پی پی پی مضبوط ووٹ بنک ایک عوامی اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کی بنا پر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا ہے پی پی نے دانستہ خاندانی شہنشاہی حکومت حکومت کی باقاعدہ فوج بننے کا عمل کیا آئی ڈی پیز کے حوالے سے مذکورہ حکمران طبقہ اور اُس کے کارندوں کے بارے میں عمومی رائے انتہائی تشویش ناک ہو چکی ہے۔
مگر حکمران حکمران طبقات اور اُن کی حلیف پارٹیوں کے معیارات صرف اور صرف اس نکتے پر جمے ہوئے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ منافعوں کو ممکن بنانے والی پالیسیاں ہی سوچی اور عمل میں لائی جائیں یہ پالیسیاں اس نظام سرمایہ داری میں محنت کشوں کی ناکامی کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں جو کسی طور پر مسائل کی حقیقی وجوہات کا نہ تعین کرتی ہیں اور نہ مداوا اور ہو بھی کیوں کہ یہ بھی تو ہمارے مسائل کا ہی ایک حصہ ہیں سرمایہ دارانہ نظام میں منافع بنانے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔
Load shedding
جس میں سرمایہ دار حکمران محنت کشوں کا استحصال انہیں منافعوں اور روز گار کے حقوق سے محروم کرنے کی صورت میں کرتے ہیں اقتدار کی ہوس کیلئے یہ بھی ایک ناکام خواہش کا تسلسل ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو بطور خاص استعمال کیا اور اس سلسلے میں چھ ماہ ،کبھی دوسال میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے خوشنما وعدے عوام سے کئے گئے لیکن اقتدار پر قبضہ کے بعد لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑ گئی کارل مارکس نے بہت پہلے لکھا تھا۔
”قدر زائد کیلئے اندھا بے قابو جنون اور درندوں جیسی بھوک سرمائے کو نہ صرف اخلاقی بلکہ جسمانی مشقت بھی پار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے یہ انسانی جسم کی نشو و نما ،بڑھوتری ،صحت مندی کے حالات کو غضب کر لیتا ہے یہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی چرا لیتا ہے صرف ایک مقصد باقی بچتا ہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ قوت محنت کیسے حاصل کی جائے یہ مقصد مزدور کی زندگی میں کمی کر کے حاصل کیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک لالچی کسان زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے زمین کی زرخیزی ختم کر دیتا ہے۔