موجودہ دور میں سائنس، ٹیکنالوجی اطلاعات و معلومات دنیا کے تمام کی مشترکہ ضرورت ہے معشیت کے میدان میں بھی سب کا ایک دوسرے پر انحصار ہے علاوہ ازیں سلامتی کی نئی ابھرتی ہوئی صورت حال کا بھی تقاضا ہے کہ ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان ٹکرائو اور تصادم کے متعلق ناعاقبت اندیشانہ پشین گوئیوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں لیکن انسانیت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے یکجہتی اور ہم آہنگی سے رہنے کے لیے ہمیں مزید بہت کچھ کرنا ہوگا اس کے لیے پہلا اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام کریں کہ ثقافتوں کے درمیان فاصلے اور رکاوٹیں باقی نہ رہیں نہ ہی امیر اور غریب کی مستقل تقسیم باقی رہے۔
اس مقصد کے لیے جہاں کہیں ممکن ہو فری مارکیٹ اقتصادی تعاون اور غریب ترین ممالک کے لئے ترقیاتی امداد کی حمائیت کرنا ہوگی ۔دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انتھک محنت کرکے ایسے مشترکہ نکات اور پہلوتلاش کرکے سامنے لائیں جائیں اور انہیں مستحکم بنایا جائے جو اس مقصد کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوں اور جن کے بارے میں تجربے سے یہ ثابت ہو چکا ہو کہ وہ فروغ امن کے لئے سازگار ماحول اور مددگار ہوتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ میری بات بخوبی سمجھتے ہیں مدعا یہ ہے کہ انسانی حقوق کے فروغ کے لئے انتھک اور بھرپور جدوجہد کی جائے جس کی بین الااقوامی برادری پوری طرح پابند ہو۔
ہمیں یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مغرب میں بھی انسانی حقوق کی موجودہ سطح آسانی سے حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ مقام انتہائی محنت و مشقت کے بعد طویل دور کے بعد حاصل ہوئی ہے اور اس جدوجہد کو بارہا صدمات اور مشکلات سے گزرنا پڑا ہے لیکن اس میدان میں تمام تر پیش رفت کے باوجود مغربی ثقافتوں میں اب بھی امنگوں اور حقائق کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے اس سلسلے میں صرف خواتین کے حقوق کا حوالہ دنیا کافی سمجھتا ہوں بہرحال اب ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ افراد ،اقوام اور ملکو ں کی ثقافتوں کے درمیان امن و مفاہمت کے لئے انسانی حقوق کا احترام موئثر ترین ذریعہ ہے۔
یہ مقصد حاصل کریں ۔باہمی واقفیت کے بغیر مفاہمت پروان نہیں چڑھ سکتی اور مفاہمت کے بغیر باہمی اعتماد اور احترام کا جذبہ پید ا نہیں ہوسکتا ۔اور باہم اعتماد کے بغیر حقیقی امن نہیں ہو سکتا۔بلکہ ٹکرائو اور تصادم کا خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے اگر ہم حصول امن اور اس سے بھی بڑھ کر پائیدار امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں بے شمار اور گوناگوں کوشش کرنا ہو نگی اس سلسلے میں کی جانیوالی کوشش ہمارے لیے قابل فخر اور قابل تعریف ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امن کا تعلق ادب و شاعری سے بھی ہے تو یہ بھی حقیقت ہے اس دور کے ادیبوں اور اسکالروں نے سیاست سے بالاتر ہو کر جو علمی و ادبی کام کیا ہے۔
اس نے بلاشبہ امن و مصالحت کے جذبے کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ان الفاظ کا اظہار وفاقی جمہوریہ جرمنی کے آنجہانی صدر رومن پر زوگ نے جون 1996ء میں جرمن ٹریڈ ایسوسی ایشن کے تحت منعقد ہونے والی ایک تاریخی تقریب جو کہ آنجہانی ڈاکٹر اینی مری شمل کو امن انعام دینے کی تقریب تھی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ڈاکٹر اینی میری شمل اعلیٰ پائے کی جرمن اسکالر تھیں انکی علمی کاوش کی وجہ سے وہ انعام کی مستحق ٹھہریں ۔وہ ہمیشہ امن ومفاہمت کا درس دیتی رہیں انہوں نے اسلام پر بھی تحقیقی مقالے لکھے وہ علامہ محمد اقبال کی خودی اور انقلابی شاعری کے خدوخال کو امن مفاہمت کا رنگ دیتی رہیں۔
Terrorists
عظیم لوگوں کے الفاظ نعرے اور شعر ہمیشہ زندہ وتابندہ رہتے ہیں جرمنی کے آنجہانی صدر پرزوگ ایک عظیم سیاستدان اور دانشور تھے ان کی تقریروں کے مندرجات ہمیں امن کا درس دیتے رہیں گے ہٹلر کے جرمن کو ڈاکٹر ہلمٹ کوہل اور آنجہانی صدر پرزوگ نے امن کا گہواراہ بنانے میں عظیم جدوجہد کی آج وہی جرمن جو کبھی شرپسندوں تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور نازی ازم کا بھوت بنگلہ بن گیا تھا اب شیش محل کا روپ دھار چکا ہے ہمارے لیڈروں کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنا ہو گااورپڑوسیوں سے مثالی رشتے استوار کرنا ہوں گے اور انہیں بتانا ہوگا کہ ہم امن کے داعی ہیں امن چاہتے ہیں امن سے رہنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پڑوسیوں کو بھی اپنے طرز عمل اور رویئے بدلنا ہو ں گے پاکستان ایک ایسا ملک ہے۔
جسے زندہ رہنا ہے اور ہمارے پڑوسیوں کو بھی جان لینا چاہیئے کہ پاکستان کے بغیر امن کو فروغ نہیں دیا جاسکتا اگر ہم دو قدم آگے بڑھا ئیں گے تو پڑوسیوں کو دس قدم آگے بڑھانے ہوں گے جرمن اور جاپان کی تاریخ سے ہم سب کو سبق سیکھنا ہے منڈی کی جنگ قطعا جائز نہیں ہے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی سوچ کبھی امن کو جنم نہیں دے سکتی بھارتی لیڈروں کو اب مہا بھار ت بنانے اور پاکستا ن کو نیست و نابود کرنے کا ارادہ ترک کرنا ہوگا امریکی لیڈروں کو بھی دنیا پر حکمرانی کے لئے جنگ و جدل کے ذریعے انسانوں کے بے جا قتل وغارتگری کی بھونڈی سوچ تبدیل کرنی ہو گی بہت ہو چکا ہے۔
اب دنیا کو امن و مفاہمت کی اقدار کی ضرورت ہے جسے ہم سب مل کر انجام تک پہنچا سکتے ہیں ۔اور منزلوں تک پہنچنے کے لئے ہم سب کو بغض کینہ حسد اور منفی سوچ بدلنا ہوگی اسی میں ہم سب کی بہتری اور بھلائی ہے۔