کیا ہم صرف نام کے مسلمان؟

Christmas

Christmas

مذہبی ایام و تہوار کا دنیا بھر میں منانا روایتی عمل ہے، جب بھی یہ تہوار جن میں کرسمس، دیوالی، ہولی وغیرہ نمایاں ہیںکے آنے پر دنیا بھر میں جہاں جہاں ہندو، عیسائی برادری کے افراد آباد ہیں وہاں اس موقع پر خریداروں کے لئے خصوصی رعایت کی جاتی ہے ۔ اسی طرح بیشتر اسلامی ممالک میں ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیاء ضرورت اور عید کیلئے کپڑوں، جوتوں وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔

ہر بار ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہم یہ روایتی جملہ اخبارات میں پڑھتے ہیں اور ٹی وی چینل پر سنتے ہیں کہ ماہ رمضان ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتہائی عقیدت اور احترام سیساتھ منایا جاتا ہے ۔ لیکن یہ انتہائی عقیدت و احترام اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو عملی زندگی میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔

باعث شرم صورتحال ہمارے سامنے اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یورپی ممالک سمیت ایشیائی غیر مسلم ممالک میں بھی مسلمانوں کیلئے روز مرہ کے استعمال میں آنیوالے غذائی اشیاء جن میں سبزیاں ‘پھل ‘دالیں اور گوشت وغیرہ شامل ہیںکی قیمتیں آدھی کردی جاتی ہے تاکہ مسلمان اس ماہ رمضان کو بھرپور انداز میں منا سکے۔

لیکن اس کے برعکس اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے مقدس ترین ماہ رمضان المبارک میں گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے ریکارڈ قائم کرکے روزہ داروں کے گرد مہنگائی کا ایسا جال بچھادیا جاتا ہے کہ انہیں ماہ رمضان سے قبل دس روپے میں ملنے والی شے بیس روپے میں ملتی ہے ۔ اس کے بعدعید الفطر ہو یا ہو عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی اشیائے خوردو نوش و ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

حکومت ہر بار صرف بیانات دینے پر ہی اکتفا کرتی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی مگر سبسڈی والی یہ اشیاء کہاں دستیاب ہیں کچھ معلوم نہیں، سستے رمضان بازاروں میں ملنے والا آٹا اور دیگر دوسری اشیاء انتہائی ناقص اور غیر معیاری ہیں اور یہی اشیاء سستی ہونے کی وجہ سے رمضان بازاروں میں پہنچتی ہیں، مقامی دکاندار خرید لیتے ہیں اور پھر انہیں مہنگے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے، غرض یہ کہ آٹا ، چینی، چاول اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں جبکہ پھلوں کی قیمت سن کر تو اچھے خاصے انسان کو چکر آنے لگتے ہیں ۔یہی سب اس بار بھی ماہ مبارک میں ہوا ہے۔

Punjab Government

Punjab Government

پنجاب حکومت نے کروڑوں روپے کی سبسڈی دی ۔ سندھ کی حکومت نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا اور سب سے بڑھ کر وفاقی حکومت نے سسبڈی کا دم چھلا لگا کر عوام کی نگاہ میں خود کو سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ نصف رمضان المبارک گذرنے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں تو کہیں سے رعایتی اشیاء دستیاب نہیں۔ ضلعی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ۔ ان کا وجود بھی صرف کاغذی سطح پر نظر آتا ہے یا پھر سرکاری ہینڈ آئوٹ کے ذریعے بنادی کی جاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری ہے ۔ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ کر اعلیٰ افسران کو خوش کیا جارہا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی پھل نہ تو خرید سکتا ہے اور نہ ہی اس کی خواہش کر سکتا ہے’شہروں میں قائم کئے گئے بچت بازاروں کا حال تو ہے کہ بچت بازار کے ٹینٹ دوپہر کے بعد خالی نظر آتے ہیں ان میں نہ تو دکانیں بنائی گئی ہیں اور ن ہی کوئی پتھارا لگایا گیا ہے ،دن کے وقت ایک دو مزدا ٹرک آتے ہیں جن میں خربوزہ اور تربوز وغیرہ لوڈ ہوتا ہے جو یہاں بیچ کر چلے جاتے ہیں ۔اس کے بعد دن بھر یہ خالی بچت بازار حکومتی اہلکارو ں کی کارکردگی کی داستان بیان کررہا ہوتا ہے۔

ہمار ے عظیم ملک کے عظیم افسران کی حالت زار ہے کہ ماہ رمضان سے قبل پورا پورا دن ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اجلاس کرتے رہتے ہیں مگر ماہ رمضان میں اس اجلاس میں جاری ہونے والے حکم نامہ یا متفقہ فیصلوںپر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا اور یہ افسران ان بچت بازاروں کا دورہ کرنا اپنی شان کی گستاخی سمجھتے ہیں’ اعلیٰ افسران کی ناروا رویہ اور نااہلی کی وجہ سے بے پناہ منہگائی کے باعث غریب متوسط طبقہ خاصاپریشان نظر آتا ہے اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خدارا، ہم پر رحم کیا جائے ،اس سیاسی بساط میں آپ کو ایک تازہ واقعہ سناتا ہوں ۔بھارت ایک غیر اسلامی ملک ہے لیکن وہاں کی حکومت بھی رمضان المبارک کے مہینے کے احترام میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں عام دنوں کے مقابلے میں خاطر خواہ کمی کر دیتی ہے۔

جس کی ایک واضع مثال بھارتی ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا نے قائم کی جس نے مسلمانوں کیلئے ساڑے چار ہزار ٹن چاول مفت دینے کا اعلان کیا اور یہ چاول تامل ناڈو کی تقریباً 4000 مساجد میں تقسیم بھی کردئے گئے ہیں لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں وہی اشیاء دو گنا’ تین گنا قیمت پر فروخت ہورہی ہیں، 20 روپے کلو فروخت ہونے والا آلو رمضان میں 80 روپے سے لیکر 100 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے اور یہی حال ٹماٹر پیاز اور دوسری سبزیوں کا بھی ہے’ یعنی رمضان میں نہ آٹا، نہ پھل، نہ گوشت اور نہ ہی سبزیاں عام آدمی کی طاقت خرید میں نہیں، لالچ اور ہوس اس قدر بڑھ گیا ہے۔

لوگوں میں اس ماہ مقدس کا احترام زرہ بھی باقی نہیں رہا اور تاجر حضرات کی مہربانیوں سے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ اس مہینے کا انتظار سارا سال کرتے رہتے ہیں ‘ اس سلسلے میں اگر تاجروں سے استفسار کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ منڈی میں یہی نرخ مقرر ہیں جبکہ سرکار کا کہنا کچھ اور ہوتا ہے ، حکومت ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی مگر دوسری طرف ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

آخر کیوں؟ حقیقت جو بھی ہے ہم سب کو بحیثیت مسلمان یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم اسلامی تعلیمات کا احترام کریں ‘ دنیا میں ناجائز طریقے سے کمائے گئے یہ چند روپے آخرت میں ہمارے گلے کا طوق بن جائیں گے اور دنیا میں بھی ہم ذلیل و رسوا ہو جائیں گے کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل ہے ‘ انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ ”ہم صرف نام کے مسلمان ہو کر رہ گئے ہیں ” بس اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے (آمین)۔

Junaid Ali Gondal

Junaid Ali Gondal

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔ جنید علی گوندل