آج کل پاکستان کا سیاسی ماحول کافی گرم دکھائی دے رہا ہے کبھی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب عوام کو انقلاب لانے کی طرف مائل کر رہے تو کبھی پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اس حکومت اور 11مئی کو الیکشن میں ہونے والی دھاندلے کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنوں کی کال دے رہے ہیں۔بات سیدھی سی ہے جس کو اقتدار مل گیا وہ خوش جسے نہیں ملا وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعما ل کر رہا ہے۔
سب سے پہلے اگربات کی جائے مولانا طاہر القادری صاحب کی کہ جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی انقلابی نعرے لگائے مگر جب الیکشن کا وقت آیا اور واقعی اقتدار کی جنگ چھڑی تو پھرتو جیسے ان کے غبارے سے ہوا ہی نکل گئی کیونکہ موصوف جانتے تھے کہ ملک کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے چند ہزار مریدوں کے علاوہ کسی نے ان کو ووٹ نہیں دینا اور ان بنا پر ان کا پاکستان کے کسی علاقے یا حلقے سے کامیابی حاصل کرنا ممکن ہے جس بنا پر انہوں نے الیکشن لڑنے سے گریز کیا او ریوں محض انقلابی نعروں اور سسٹم بدلنے کے کے خوابوں تک محدود رہے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی جس نے لاہور میں سب سے بڑا جلسہ کرنے کے بعد دعوہی کیا کہ انکی پارٹی پورے ملک میں کلین سویپ کرے گی۔عوام سے بڑے وعدے کیئے گئے سہانے خواب اور سبز باغ بھی دکھائے ساتھ ہی بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ ہم کلین سویپ کرنے کے بعد ملک کا نقشہ بدل دیں گے،پورے سسٹم کو تبدیل کریں گے اور پٹواری سسٹم کا خاتمہ کر دین گے۔ان دنوں تحریک انصاف گویاعروج پر تھی اور ہر لیڈر اسی پارٹی میں شامل ہونے کو کوشش میں تھا اور لوگ بھی جوق در جوق اسی پارٹی میں شامل ہو رے تھے اور پارٹی قائد عمران خان صاحب نے کلین سویپ کا نعرہ لگاتے ہوئے خوابوں میں اپنے آپ کو وزیر اعظم ہائوس بیٹھا ہوا پایا اور جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا جناب تو بنی گالا بیٹھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح عمران خان صاحب ہمیشہ سے وزیر اعظم بننے کی سوچ لے کر ہی سیاست میں کودے کیونکہ انہوںنے 11مئی 2013کے الیکشن میں کلین سویپ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہ رکھی یہ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ہر امتحان میں دوسری چوائس رکھنا لازمی ہے ضروری تو نہیں آپ پاس ہوں فیل ہونے کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان صاحب وزیر اعظم بننے کے شوق مین ایم ان اے کے ایم این اے ہی رہ گئے اور اب دوسروں پہ ایسے تنقید کرر ہے ہیں جیسے وہ خود بہت مظلوم ہیں الیکشن کے نتائج برآمد ہوتے ہی اواحد پاکستان تحریک انصاف تھی جس نے دھاندلی کاڈھنڈوراپیٹنا شروع کر دیا جو تا حال جاری ہے۔قومی اسمبلی کی 25 سیٹیں جیتنے کے بعد پارٹی قائد کا وزیر اعظم بننے کا خوا ب تو چکنا چُور ہو گیا اسی صدمے کی وجہ سے تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن پرپورے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا دیا کیونکہ مسلم لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت سے فتح حاصل کر لی تھی اب رہی بات صوبائی حکومتوں کی تو خیبر پختونخوا ہ کی حکومت پاکستان تحریک انصاف کے حوا لے کردی گئی کیونکہ وہاں تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی میںواضیح اکثریت حا صل کی تھیں۔
Imran Khan
اب دھاندلی کے متعلق بات کرتے ہیں عمران خان صاحب ہمیشہ چار حلقوں کی بات کرتے ہیں کہ اگر ان چار حلقوں سے دھاندلی ثابت ہو گئی تو وہ اس الیکشن کو نہیں تسلیم کریں گے ۔تحریک انصاف نیاالیکشن کی دوبارہ پڑتال کے لیے بے شمار درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں مگر لگتا ایسا ہے سبھی کی سبھی بے سود جائیں گی۔فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے موصول ہونے والی کل 410 شکایات میں سے 301 شکایات 31 مئی 2014 تک نمٹا دیں جبکہ 100 شکایات زیر التوا ہیں،انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جانے والی شکایات کے حوالے سے غیر سرکاری ادارہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جاری رپورٹ سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق الیکشن کمیشن کو مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی طرف سے الیکشن کو یہ تمام شکایات الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے متعلق جمع کرائی گئی۔
فافن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی نمٹائی گئی 37 شکایات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی شرح صفر رہی ا،فافن کیء مطابق اس طرح تحریک انصاف زیر التوا تمام دھاندلیوں کے کیس جیت بھی جائے تب بھی بر سر اقتدار نہیں آ سکتی۔
کسی بھی میدان میں شکست کھانے کے بعد یا تو انسان اپنی ہار تسلیم کر لیتا ہے یا پھر اس گیم یا سسٹم میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتا ہے۔اسی طرح تحریک انصاف کام کر رہی ہے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ٹھیک سے جگہ بنا نہیں سکی کیونکہ لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے اور اب دھاندلی کارونا رویا جا رہا چاہیئے تو یہ تھا کہ اقتدارمیں جتنا بھی حصہ ملا ہے اس کو غنیمت جانتے اور ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عملی کام کا آغاز کر دیتے اور کم ازکم خیبر پختون خواہ کو ہی ایک مثالی صوبہ بنا دیتے۔
مگر افسوس کہ اقتدار کے نشہ میں آنے کی دھن میں سوار خانصاحب کا بس بڑی کر سی تک پہنچنا ہی مقصد ٹھہرا ۔ ان کے اپنے صوبے میں نہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی نہ ہی عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر کوئی فوری قدم اٹھا یا گیا ۔ ہر سیاست دا ن نجانے کیوں صرف اپنا ہی الو سیدھا کرنے پر کیوں لگا ہوا ہے ۔سیاست دانوں کا پیسوں کے لالچ اور اقتدار کی ہوس اور آپسی لڑائیوں نے عام عوام کا تو بھرکس ہی نکال دیا ہے سیاست دان خود تو آرام اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جبکہ عوام بچاری غربت لوڈ شیڈنگ اور جان ہتھیلی پر رکھے بیٹھی ہے کسی ایسے مسیحا کے انتظار میں کہ جو حقیقی معنوں میں ان کے دکھوں کا مداوا کرے ۔۔ مگر حالات بتاتے ہیں کہ فلحال تو ایسا ہوتا اور دکھائی دیتا نظر ہی نہیں آرہا اس سارے ڈرامے بازی کے لیے صرف ایک جملہ کہنا چاہوں گا جو اس پورے سین کو قلمبند کرتا ہے کہ ہمارے ہاں سیانے کہتے ہیں نا ‘ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑا۔۔۔