تحفظ پاکستان ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) جماعت اسلامی نے حال ہی میں منظور ہونے والے تحفظ پاکستان ایکٹ (پی پی اے) 2014 کو ‘اختیارات سے تجاوز’ قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بدھ کو اپنے وکلاء توفیق آصف اور شیخ احسان الدین کے توسط سے پی پی اے قانون کے خلاف پٹیشن دائر کی۔

جے آئی کی جانب سے چیلنج کے بعد ملک کی دو اعلیٰ قانونی ایسوسی ایشنر پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی پی پی اے کو چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

جے آئی نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ پی پی اے پاکستانی شہریوں کو آئین کے باب 1، حصہ دوئم کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ پورا قانون متضاد اور آئین کی شق ٹو اے، چار، آٹھ، نو، دس، دس اے، بارہ، چودہ، پندرہ، انیس اے، تئیس، چوبیس اور پچیس کے تحت بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ پارٹی نے استدعا کی ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا کوئی ایکٹ شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو تو سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔

درخواست میں پی پی اے کی شق (اے2) 3 کا حوالہ دیتے ہوئے استدعا کی گئی کہ کوئی بھی سرکاری عہدے دار یا اتھارٹی عدالتی جائزے سے بالاتر نہیں۔ درخواست کے مطابق، کسی سرکاری عہدے دار کو اختیار نہیں کہ وہ محض شک کی بنیاد پر کسی شہری پر گولی چلا دے۔

اسی طرح، پی پی اے قانون کے تحت خصوصی عدالتوں کا قیام بھی سپریم کورٹ کے وضح کردہ اصولوں کی خلاف ورزی اور سب کے لئے منصفانہ ٹرائل کے حوالے سے آئین کی شق دس اور دس اے کے مخالف ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ قانون درحقیقت 1998 میں مہرام علی کیس میں وضح کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس کیس میں سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی کچھ شقوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان میں ترامیم کا حکم دیا تھا۔ سراج الحق نے مزید استدعا کی کہ پی پی اے قانون کے کچھ حصے 1898 کے کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کی اہم شقوں کے بھی خلاف ہے۔