لاہور (جیوڈیسک) پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں ایک عدالتی انکوائری کا سامنے کررہے ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اس تحقیقات میں شامل کیا جائے۔
اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ سے استعفی دینے کے لیے کہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اس انوسٹی گیشن میں شامل کیا جائے کہ انہوں نے منہاج القرآن ہیڈکوارٹرز اور پی اے ٹی کے سربراہ کی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ کے اردگرد سیکیورٹی بیریئرز کو ہٹانے کے خلاف عوام اور منہاج القرآن کے کارکنوں کو مزاحمت کرنے کے لیے اکسایا تھا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انہوں نے اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والے ایک جج پر مشتمل ٹریبیونل کے سامنے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے زور دیا کہ ماڈل ٹاؤن کے سانحے کی پہلے سے کسی طرح کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، اور اچانک اشتعال انگیزی کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا تھا۔
سابق صوبائی وزیرِ قانون نے کہا کہ تجاوزات دور کرنے کی کارروائی کے لیے تعینات کیے گئے افسران کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر عدالتی اور محکمانہ انکوائریاں کی جارہی ہیں۔
دوسری جانب یڈیا، ٹوئٹس اور ایس ایم ایس کے ذریعے پارٹی کے سرگرم کارکنوں اور عام لوگوں کو مشتعل کرنے اور سیکیورٹی بیریئر ہٹانے کے خلاف قربانیاں پیش کرنے کے لیے گھروں سے باہر آنے کے لیے اکسانے میں ملؤث افراد کو بھی اس تحقیقات میں شامل کیا جانا چاہیے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری منہاج القرآن کے دیگر قیادت کے علاوہ وہ مرکزی شخصیت تھے جو سترہ جون کے واقعہ کے دوران عوام کو اکسارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو منہاج القرآن کی قیادت کا یہ عذر قبول نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس تحقیقات میں تعاون نہیں کریں گے، اس لیے کہ اس مؤقف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ نظامِ انصاف کے سخت خلاف ہے۔
سابق وزیر نے کہا کہ اگر اس درخواست کو ایک بار اجازت دے دی گئی تو پھر ہر پارٹی عدالتی عمل کے بائیکاٹ کے فارمولے کو اپنانے پر غور کرنا شروع کردے گی، نتیجے میں نظامِ انصاف مکمل طور پر افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔