آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا بھر میں عورت ظلم و ستم کا شکار ہے انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیمیں بخوبی آگاہ ہیں بلکہ ان کے پاس مکمل رپورٹس موجود ہیں کہ دنیا کے کس ملک میں عورت کیساتھ ناروا سلوک یا برتاؤ کیا جاتا ہے اور یہ تنظیمیں آعلیٰ سطح پر احتجاج بھی کرتی ہیں کہ فلاں فلاں ملک میں خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے، حکومتوں کو ڈپلومیٹک طریقے سے سرزنش بھی کی جاتی ہے کہ خواتین کے تحفظ کیلئے ٹھوس قوانین بنائے جائیں۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس کے ادارے دیگر تنظیموں کے توسط سے ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص صحت، تعلیم ، خواتین اور بچوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے خاصی رقم بھی فراہم کرتے ہیں لیکن ریاستی نام نہاد رہنما اورجمہوریت کے علمبردار وہ رقوم ملک یا عوام کی ترقی و خوشحالی کے بجائے انہیں اپنے فارن اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین پر ظلم وستم یا تشدد کی وارداتوں سے تمام دنیا آگاہ ہے،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ میڈیا میں عورت پر کسی بھی قسم کی ظلم یا زیادتی کی خبر نشر نہ ہو، اس کے باوجود ملک کے کسی ادارے بالخصوص وزارت قانون جس کے فرائض میں شامل ہے کہ ملک بھر میں قانون کے نفاز اور عمل کو قائم رکھا جائے ،بجائے اس کے یہی قانون نافذ کرنے والی وزارت اور اس سے منسلک دیگر للو پنجو ادارے کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں اس جیسے ادارے کو قفل لگا دینا ہی بہتر ہے کیونکہ جب یہ ادارہ ریاست میں عوام کو تحفظ و انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو اس کا بند ہو جانا ہی بہتر ہے۔
اوراس عمارت کی پیشانی پر ایک تختی آویزاں کر دینی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک منفرد ادارہ جسے کوڑھ جیسی موزی بیماری لگے اور گلے سڑے سڑسٹھ سال بیت گئے ہیں عوام کے کسی کام نہ آیا اور نہ آئے گا ،تا حیات بند کر دیا گیا اور ایک میوزیم کے روپ میں دستیاب ہے بلکہ اس ادارے پر یادگاری ٹکٹ بنائے جائیں، پاکستان کا اینٹیک ادارہ۔
خواتین کی آزادی ، حقوق ، اور بہبود کے بلند بانگ دعوں والے اس زمانے میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے ہی جارہے ہیں، عصمت دری ، جنسی بلیک میلنگ ، اغواہ اورگھریلو تشدد معمول کی باتیں بن گئی ہیں ، عام لوگ گویا ان باتوں کے عادی ہو تے جا رہے ہیں اور اس افسوسناک صورت حال پر بے چینی یا پریشانی کی کوئی خاص کیفیت معاشرتی سطح پر نہیں دیکھی جا رہی جو کہ ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ برائی اور جرائم کے خلاف رد عمل کی سطح جتنی کم ہو گی اتنا ہی ان میں اضافہ ہو گا۔
مرد میں حاکمیت کی قوت ہوتی ہے جس کے سبب وہ عورت پر مختلف انداز میں تشدد کرتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ عورت بے بس اورکمزور ہے اسی وجہ سے ایک طرف تو وہ اس کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کرتا ہے اور دوسری طرف اسے دبا کراحساس برتری کی تسکین حاصل کرتا ہے اور یہ دونوں کام دنیا کے سب سے آسان کام ہیں ،جیسے کہ اوپر تحریر کیا ہے ملک میں قانون نہ ہونے کی وجہ سے عورت کو جو مقام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے ہمارے معاشرے نے عورت کے اس مقام کو پستی میںدھکیل دیا گیا ہے۔
بالخصوص پاکستان میںدیہات کی خواتین سے مزدوروں کی طرح کام کروائے جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض مرد جو کاہل اور کام چور ہوتے ہیں وہ عورتوں کی کمائی پر گزارہ کرتے ہیں علاوہ ازیں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی خواتین ،فیکٹریز یا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی عورتیں اپنے نکمے، جواری ، شرابی یا کسی بھی منشیات کے عادی مردوں کو اپنی کمائی دینے سے انکار کرتی ہیں تو ان کے ظلم کا شکار ہوتی ہیں ،مار بھی کھاتی ہیں اور ان کے پاؤں بھی دابتی ہیں ظلم کی انتہا عورت پر اس وقت ہوتی ہے جب یہ نام نہاد شوہر نما بھیڑئے ان کے جسمانی اعضا کاٹ ڈالتے ہیں۔
یا خوبصورت چہرے پر تیزاب پھینک کر جلا ڈالتے ہیں ایسے لوگوں کو معاشرے میں جینے کا کوئی حق نہیں ،ملک میں قانون نہ ہونے کا یہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں کسی اور پر زور ، دھونس دھمکی نہیں جما سکتے تو اپنے بیوی بچوں پر تشدد کرتے ہیں،سوال یہ ہے کہ اگر عورت پر بدکاری کا الزام لگا کر اسے سنگسار کیا جاسکتا ہے تو ان جیسے خونخوار درندوں کو کوڑے کیوں نہیں لگائے جاتے مرد کی حاکمیت کا یہ مطلب تو نہیں کہ جب جی چاہا جس سے چاہا بد فعلی کی اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہو گیا یا ثبوت مٹا دینے اور چند ٹکے قانون کے رکھوالوں کے سامنے ہڈی کی طرح پھینک دینے کے بعد بے قصور ٹھہرایا جائے۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟
سوچنے کی بات ہے کہ یہ بے نیازی اور بے حسی سماج میں کیوں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ؟ عورت معاشرے میں کیوں ایک کھلونا بن کہ رہ گئی ہے؟ کیا عورت کا مطلب محض جنسی تسکین ، لطف اندوزی رہ گیا ہے اور کیا عورت صرف دن میں گھریلو کام اور رات کو تفریح کا ذریعہ ہے؟قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر سے کچھ اوجھل نہیں لیکن ان میں اتنی ہمت اور جرأت بھی نہیں کہ عورت کے تحفظ پر کوئی ٹھوس قانون بنائیں،سچ بات تو یہ ہے کہ ایمان اور عقیدہ کمزور ہونے کی وجہ سے ان پڑھ خواتین جعلی عالموں پیروں فقیروں کے اڈوں تک پہنچائی جاتی ہیں جہاں۔
وہ مذہب کی آڑ میں ان معصوم عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں اور قانون کے رکھوالے ان مجرموں کی پشت پناہی کرتے اور اپنا حصہ بٹورتے ہیں ،حکومت کو چاہئے ایسے پاکھنڈی عالموں اور پیروں فقیروں کے اڈوں کو فوراً جلا کر راکھ کرنے کا حکم دے، سمجھ سے بالاتر بات یہ بھی ہے کہ یوں تو ملک میں بے شمار مذہبی جماعتیں ہیں جن کا فرض ہے کہ عوام میں اسلامی تعلیم اور تہذیب و تمدن کی روشنی پھیلائیں جبکہ یہ جماعتیں سیاست میں ملوث ہیں اور عوام کو بہکاتی بھی ہیں اس وقت یہ نام نہاد اسلامی جماعتیں کہاں ہوتی ہیں جب سر عام کسی عورت سے زیادتی کی جاتی ہے، احتجاج کرنا جب ایک سیاسی پارٹی کا حق ہے۔
تو ایک عام انسان یا مذہبی جماعت بھی اتنا ہی حق رکھتی ہے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کیا جائے ،کیا یہ عالم دین اس بات سے آگاہ نہیں کہ قرآن حکیم میں زانیوں اور عصمت دری کے مجرموں کو سر عام سو کوڑے مارے جانے کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس معاملے میں کوئی نرمی یا رحم دلی دکھانے سے منع کیا گیا ہے ،کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کوئی اسلامی قانون ہے ؟۔
عالم دینوں کو ٹی وی سٹوڈیوز میں بیٹھ کر یا مساجدو مدارس میںدینی و دنیاوی وعظ دینے کی بجائے حکومت سے صاف الفاظ میں مطالبہ کرنا چاہئے کہ یہ اسلامی ریاست ہے اور اسلامی قوانین کا نفاذ لازم ہے یا کم سے کم خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے، جدید قوانین میں بھی عورت کی عزت اور ان کی عصمت کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہے مغربی ممالک میں اسلامی قانون نہیں ہے لیکن ریپ کے مجرم کو سات سال کی سزا کا حکم ہے۔یاد رہے عورت محض جنسی وجود یا کھلونا نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت کی مالک ہے۔
اسکے اندر جذبات اور مردوں سے کئی گنا زیادہ احساسات ہیں،معاشرے میں اسکا ایک مقام اور کردار ہے اپنی مکمل شخصیت اور خدمات کے اعتبار سے انتہائی عظمت و احترام کی حقدار ہے۔حکومت کو چاہئے جنسی جرائم کے سلسلے میں قوانین کو آخری حد تک سخت بنائے ،خواتین پر تشدد یا عصمت دری کوئی معمولی جرم نہیں ،اسکے نتیجے میں عورت کی پوری شخصیت تباہ ہو جاتی ہے،عورت کیساتھ زیادتی کے کئی نمونے آج معاشرے میں ہر گھر میں رونما ہورہے ہیں۔
شادی کے بعدجہیز کم لانے پر تشدد، اولاد نہ ہو تو تشدد، بیٹی پیدا ہوئی تو تشدد، ساس سسر کے پاؤں نہیں دبائے تو تشدد ،کئی مرد ان وجوہات کی بنا پر طلاق بھی دے دیتے ہیں یا دوسری بیوی گھر لے آتے ہیں ،آئے دن تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں،آئے دن معصوم عورتوں اور بچوں کو اغواہ اور ریپ کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے ،دنیا کے کسی ملک میں اس نویت کے جرائم نہیں ہوتے جتنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رونما ہوتے ہیں ،یہ کہنا درست ہو گا کہ نام دیکھو اور کام دیکھو۔
جرمنی کے چھوٹے قصبے میں پیش آنے والا واقعہ پیش خدمت ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے کیسے اپنے فرائض انجام دئے۔ فروری دوہزار آٹھ میں ایک عورت اچانک غائب ہوگئی عورت کے شوہر نے بچوں کو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ تمھاری ماں ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے ،بون کی علاقائی عدالت میں پانچ سال بعد اس کیس سے پردہ اٹھایا گیا اور جج نے مجرم کو آٹھ سال کی سزا سنادی۔
رپورٹ کے مطابق پیٹر نے اپنی بیوی کو قتل کرنے اور تہہ خانے کی دیوار میں چنوانے کے بعد بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں میں خبر پھیلا دی کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس کی بنا پر وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ،لیکن دوہزار بارہ میں اس کی لڑکی جو اکیس برس کی ہو چکی تھی نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی کہ میری ماں لاپتہ ہو گئی ہے۔
German Police
اسے تلاش کیا جائے تب پولیس نے تفتیش شروع کی اور گزشتہ برس نومبر کی یخ بستہ سردی میں تفتیش کار پیٹر کے گارڈن کی کھدائی میں مصروف تھے تو اسکی چھٹی حس نے الارم دیا کہ اب اس کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور اعتراف جرم کرنے کے بعد انہیں تہہ خانے لایا اور اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اسکی بیوی دیوار کے اندر قید تھی، کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد پولیس کو دیوار سے ایک عورت کا ڈھانچہ برامد ہوا،پولیس نے پیٹر کو گرفتار کرنے اور فرد جرم عائد کرنے کے کچھ دنوں بعد عدالت میں پیش کیا جہاں اسے آٹھ سال کی سزا سنائی گئی ،پیٹر نے اپنی صفائی میں عدالت کو بتایا کہ اس کا اپنی بیوی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن بات اتنی زیادہ بڑھی کہ اسے اپنی بیوی کو چپ کرانا پڑا،اسکا کہنا تھا۔
ہمارے درمیان باقاعدگی سے جھگڑا ہوتا تھا کیونکہ اخراجات کی کمی اور انکم کم تھی میں نے اپنی بیوی کو رائے دی کہ بینک اور دوستوں سے قرض لے کر اپنا ریستوراں کھولنا چاہتا ہوں جو اسے منظور نہیں تھا اس بات پر اکثر تلخ کلامی ہوتی ، قرض میں ہم پہلے سے ڈوبے ہوئے تھے فروری دوہزار آٹھ میں تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور اسکی فضول بکواس پر اسے مارا پیٹا جس سے وہ بے ہوش ہو گئی اور اسی حالت میں تہہ خانے کی دیوار میں چن دیا ۔پیٹر کی بیٹی نے عدالت کو بتایا کہ کوئی ماں اپنے بچوں سے اتنا دکھی یا ناراض نہیں ہوتی کہ پلٹ کر دیکھے بھی نہیں ان دونوں کے جھگڑے سے ہم بچوں کا کیا لینا دینا ، کافی عرصہ انتظار کیا کہ شاید کبھی میری ماں کا فون آجائے لیکن مجھے شک تھا کہ ضرور کوئی ایسی بات ہے۔
جو میرا باپ مجھ سے چھپا رہا ہے تب مجھے مجبوراً پولیس میں رپورٹ درج کروانا پڑی۔تین پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے ،قتل،قانون اور بیٹی ۔بیٹی جانتی تھی کہ باپ مجرم ہے ،پیٹر کو چاہئے تھا کہ وہ اگر اپنی بیوی سے اتنا ہی عاجز آچکا ہے کہ اسکی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور مصالحت کا کوئی چانس نہیں تو بیوی کو قتل کرنے کی بجائے چپ چاپ اس گھر سے چلا جاتا ۔قانون ۔مغربی ممالک میں قانو ن کی اجارہ داری ہے پانچ سال بعد بھی پولیس نے قاتل کو گرفتار کیا اورجج نے سزا سنائی ۔بیٹی نے تمام رشتوں کو بھلا دیا اور ایک معزز شہری ہونے کا ثبوت دیا بھلے قاتل اسکا باپ تھا۔
کیا ایسا یا اس سے مواثلت رکھتا کوئی قانون پاکستان میں ہے؟کیا پولیس ،وکلایا جج ایسا انصاف کرتے ہیں ؟ بات کو طول دینے کی بجائے مختصر آج کے خاص موضوع پر دو لائینز ۔موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو نعرے مارے کہ توانائی کے بحران پر جلد قابو پا لیں گے وزیر سفیر توانائی کے بحران پر قابو پانے کی آڑ میں سیر سپاٹے کی غرض سے کبھی جرمنی تو کبھی پیکنگ گئے اور اسے گھٹانے کی بجائے مزید بڑھا دیا گیا سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں صرف ایک بار تیس دن ہی ایسے آتے ہیں جب دنیا کے تمام مسلمان عبادات اور اللہ کے آگے سر بسجود ہو کر گناہوں کی معافی مانگتے ہیں جسے رمضان شریف کہا جاتا ہے اس مبارک ماہ میں بھی ظالموں نے بجلی پانی بند کر دیا ہے اور اسکا حل نکالنے کی بجائے لطیفے سنا رہے ہیں کہ عوام دعا کرے بارش ہو ،مطلب یہ کہ عوام بارش پئے ،بارش کھائے ،بارش میں نہائے ،بارش سے سحری و افطاری کرے ،بارش میں جئے اور مرے ہمیں کیا ؟۔میں اردو ،انگلش یا جرمن ڈکشنری میںکوئی ایسا محذب لفظ تلاش نہیں کر سکا جو ان پر ججتا ہو یا ان کیلئے فِٹ ہو ،لعنت وغیرہ الفاظ بہت پرانے ہو چکے ہیں۔
جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے زیر استعمال سرکاری گاڑی آؤدی ہے جو انہیں گھر سے پارلیمنٹ ہاؤس اور وہاں سے گھر پہنچاتی ہے کسی پرائیویٹ پارٹی یا محفل میں شرکت کرنی ہو تو اپنی ذاتی کار استعمال کرتی ہیں جبکہ پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے آعلیٰ ظرف تمام منسٹرز کے پاس بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز گاڑیاں جو کہ آؤدی کار سے تین گنا قیمتی ہیںانہیں چوبیس گھنٹے پرائیویٹ استعمال کیا جاتا ہے، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جسکے ملک میں تینوں بیش قیمت گاڑیاں تیار ہوتی ہیں وہ کم قیمتی گاڑی استعمال کرتی ہے حالانکہ اسکا ملک ہر لحاظ سے یورپ کا طاقت ور ملک ہے اور پاکستان کی رینکنگ ہر لحاظ سے ڈاؤن ہے اسکے باوجود ملک کا سربراہ بیش قیمت گاڑٰی استعمال کر رہا ہے اور اسکی عوام سڑکوں پر بھیک مانگ رہی ہے۔
عوام کو کوئی سروکار نہیں کہ ملک کے سربراہ کس گاڑی کو کب ، کہاں اور کیوں استعمال کرتے ہیں انہیں بنیادی ضروریات کی اشد ضرورت ہے پانی جس سے وہ زندہ رہ سکیں ، توانائی جس سے انکی روزی روٹی چلتی رہے اور بچے سو سال پرانے لالٹین کی بجائے پچیس واٹ کے زرد بلب کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں اور روز گار کے مواقع ۔یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب ملک میں پانی بجلی وافر مقدار میں ہوگا نہیں تو لوگ عام لوگ نہیں بلکہ مجرم بنیں گے اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہو گا ،ان رہنماؤں کو نہ جانے کب عقل آئے گی ۔آئے گی بھی یا نہیں۔
ذرا سوچئے جو لوگ باریوں میں آتے ہیں جاتے ہیں اور لائن لگا کر کھڑے ہیں کہ یہ جائے گا تو میں آؤنگا تو اس ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا ،تو رونا کس بات کا ،کسی معصوم بچے یا عورت کا اغواہ ،ریپ اور قتل ، روزانہ کسی نہ کسی سڑک پر ایکسی ڈینٹ ،دن دیہاڑے لوٹ مار،اس کو روکنا یا قابو پانا کس کا کام ہے عوام کا یا قانون کے رکھوالوں کا ؟لیکن کہاں ہے قانون؟؟؟؟؟؟