“خواہشات “لکھنے میںتو ایک معمولی سالفظ ہے لیکن انسان کی عملی زندگی میں اس کابہت بڑا عمل دخل ہے۔ خواہ کوئی بادشاہ ہویا فقیر ہرکسی کو اپنی زندگی غیر مطمئن لگتی ہے۔ کیونکہ خواہشات کا ایک ایسا سمندر اُن کے دل میں ٹھا ٹھیں مار رہا ہوتا ہے جو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ کسی کے پاس ایک لاکھ ہو تو وہ سوچتا ہے کہ کاش میرے پاس دو لاکھ ہو تا تو میں فلاں فلاں کام سرانجام دیتا۔ جب دو لاکھ اس کی زندگی میں آتا ہے تو دس لاکھ کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ یہ فگر اگر کروڑوں میں بھی پہنچ جائے تو پھر بھی اربوں کی خواہش اسکے دل میں اُجا گر رہتی ہے۔ یعنی انسانی دل اس وقت تک مطمئن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خواہشات کے اس سمندر سے نجات حاصل نہ کرے۔ “وہ بہت غریب تھا، لیکن ایک دن اس کی قسمت کا ستارا چمکا اور اس کو لاٹری مل گئی۔ دو لاکھ روپیہ ہاتھ آیا تو اس نے اپنے اور گھر کے افراد کے متعلق سوچنا شروع کیا۔
ہزاروں خواہشوں نے سر اٹھایا اور پھر ان ڈھیر ساری خواہشات کے درمیان اس نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ غریب ہو چکا ہے۔” یہ اشفاق احمد کی تحریروں میں سے ایک ہے۔ جوکہ اپنے اندر بہت وزن رکھتی ہے۔ انسان کے اندر خواہشات کی ایسی پیاس ہوتی ہے۔ جس کو دنیا کہ بیشمار سمندروں کے پانی کو اکٹھا کر کے بھی سیراب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسلئے جیسے جیسے انسان کے پاس پیسوں کااضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو مزید غریب سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ دنیا میں ایسے افراد بھی بیشمار پائے جاتے ہیں جن کے اندر خواہشوں کا طوفان نہیں پایا جاتا اور ایسے افراد بہت سکون سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن آج کل اکثریت ایسے لوگوں کی ہیں جن کہ اندر خواہشات کاایک الائوجل رہا ہوتا ہے۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی بادشاہ نے ایک درویش سے کہا۔ ” مانگو کیا مانگتے ہو؟” درویش نے اپنا کشکول آگے کر دیا اور عاجزی سے بولا۔۔ ” حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔۔” بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم۔۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا۔ انچارج ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا’ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا۔
یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہو گئے۔ بادشاہ کو بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزانے کے منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔ خزانے کے بعد وزراء کی باری آئی۔اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی’ لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔ ایک ایک کر کے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول خالی رہا۔
آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا۔ درویش نے کشکول باد سامنے الٹایا’ مسکرایا’ سلام کیا اور واپس مڑ گیا. بادشاہ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔ حضور ! مجھے صرف اتنا بتادیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے ؟” درویش مسکرایا اور کہا۔۔ اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے’ جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔
Allah
‘یعنی جب تک انسان زندہ رہتاہے اس کا دل مختلف خواہشات سے اس درویش کے کشکول کی طرح بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا اور یہ خواہشات دن بدن بجائے کم ہونے کہ مزید تقویت پکڑتی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے کم یازیادہ رزق پر صبر کرے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔ جبکہ دوسرے افراد کی کامیابیوں اوران کی سہولیات سے حسد کرنے کی بجائے نیک وجائز خواہشات کو حاصل کرنے کے لئے محنت اور لگن سے کوشش کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے افرادکی مدد کرتے ہیں۔
جو خلوص نیت سے کام کرتے ہیں اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ فضول خواہشات ایسی ہوتی ہیں جن کو حاصل کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا اسلئے ایسی خواہشات کو دل میں زیادہ جگہ نہیں دینی چاہئے کیونکہ فضول خواہشات اور ایسی خواہشات جوانسان کی دسترس میںنہ ہووہ انسان کو بسااوقات نقصان بھی پہنچا سکتی ہیں۔ کچھ خواہشات کی تکمیل کے لئے انسان کو کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں ایسے دھوکہ دہی کہ کاموں سے بھی بچنا چاہئیے۔
کیونکہ ایسے عوامل کسی بھی معاشرے کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں ویسے بھی یہ عارضی زندگی ہے جوکہ ہمیں صرف آخرت کی تیاری کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنائت کی گئی ہے جس کو اچھے طریقے سے گزارنا چاہئیے اور دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اس میں آخرت کی تیاری کرنی چاہئیے تاکہ آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا جاسکے۔