کراچی (جیوڈیسک) جرمن جریدے ’’ڈیر اشپیگل‘‘ کے مطابق کپڑے فروخت کرنے والے جرمن ادارے( کک) نے کراچی کے سانحہ بلدیہ ٹیکسٹائل فیکٹری کے لواحقین کو مزید معاوضہ دینے سے انکار کردیا۔ بلدیہ ٹاؤن میں خوفناک آتشزدگی کا شکارہونے والی گارمنٹس فیکٹری کے لواحقین اورزخمی متاثرین نے جرمن ادارے سے طویل مدتی مدد کا مطالبہ کیا تھا، جرمن کمپنی کے لواحقین کے وکیل اور پاکستانی مزدور حقوق تنظیم کے نمائندوں کے ساتھ معاوضے پر برلن میں جاری مذاکرات ناکام ہو گئے۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کے لواحقین کے وکیل فیصل صدیقی نے جریدے کو بتایا کو جرمن ٹیکسٹائل ادارہ متاثرین کی طویل مدتی مد د کے لئے بات چیت پرتیار نہیں ۔ جریدے کے مطابق جرمن ادارہ ایمرجنسی مدد میں ایک ملین ڈالر(740000یوروز) سے زیادہ ادا نہیں کرتا جو کراچی متاثرین کو پہلے ہی دے دیا گیا۔ برلن میں کمپنی کے نمائندوں نے پاکستانی مزدور حقوق تنظیم( Piler ) کے ساتھ ایک اجلاس میں موقف اپنایا کہ وہ پہلے ہی دس لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرکے اپنے حصے کی متاثرین کی مختصر اورطویل مدتی مدد کرچکے ہیں، یہ ادائیگی دسمبر 2012 میں پلر کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کی تھی۔ متاثرین کی مستقبل میں مدد کی حمایت وسیع اتحاد اور مشترکہ طور پر ذمہ داری کی صورت میں کی جائے گی۔
پاکستانی مزدور حقوق تنظیم سانحہ بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کی نمائندگی کر رہی ہے۔ لواحقین کے وکیل صدیقی نے طویل مدتی فوائد اور امداد کے لئے جرمن کمپنی سے مذاکرات کیے۔ صدیقی کا کہنا ہے کہ کک نے دسمبر 2012 کے معاہدے پر اتفاق کیا، اگراس ادارے نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو پھر جرمن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔ کراچی کی فیکٹری علی انٹر پرائزز جرمن اور دیگر مغربی اسٹورز کے لئے جینز اور دیگر ملبوسات تیار کرتی تھی۔ مزدور تنظیم اور انسانی حقوق ایسوسی ایشن( ECCHR) نے جرمن ادارے کو بھی سانحے کا مشترکہ ذمہ دار قرار دیا تھا۔
جرمن ادارہ متاثرین کو پانچ لاکھ یورو تقسیم کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا اور 1.2ملین یورو دینے کا اعلان کیا تھا۔ جریدے کے مطابق ستمبر 2012 میں سانحہ بلدیہ میں 255 کارکن جاں بحق ہو ئے تھے۔ اسی جرمن ادارے نے بنگلادیش میں فیکٹری میں آتشزدگی میں ہلاک ہونے والوں کے لئے 5 لاکھ ڈالر معاوضے کا اعلان کیا تھا، اپریل 2014 میں ڈھاکہ میں ٹیکسٹائل فیکٹری میں آگ لگنے سے 1138 کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔