مخلص ہونا اور بات ہے اور کامیاب ہونا اور بات۔ ضروری نہیں کہ جو شخص اپنے اقدام میں مخلص ہووہ کامیاب بھی ہو۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ ہمارے عوام وخواص کا ایک بڑا حلقہ اخلاص اور دینی جذبے ہی کو کامیابی کا معیار سمجھ کر فتح و کامرانی کا منتظر رہتا ہے۔ بلاشبہہ اخلاص وللہیت، دردمندی، جذبۂ دروں اور بلند حوصلگی خدا سے تقرب کی سیڑھی ہے اور کسی بھی نیک اقدام کی فتح وکامرانی کے سفرکا پہلاپڑائو لیکن جب تک اس سفر میں حکمت عملی، منصوبہ بندی، حقیقت پسندی، عملی جدوجہد اور نئے و مفید آئیڈیاز کو”زادِراہ” نہیں بنایا جاتا، منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے سفرمیں انسان چلتابہت ہے، تھکاوٹ اسے حد درجہ مضمحل کردیتی ہے لیکن وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ گھوم پھر کراسی جگہ پہنچ گیا ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔
یہ دنیا دارا لا سبا ب ہے یہاں وسائل استعمال کیے بغیر کامیابی کبھی نہیں ملتی۔ جوحضرات اس تصور میںمگن ہیں کہ ہم اہل حق ہیں اس لیے فلاح ہمارامقدرہے۔ ان کوسوچناچاہیے کہ آج اپنے مذہب، اپنی قوم اور انسانیت کے بدترین دشمنوں اور اپنے مفادات کے پجاریوں نے کامرانیوں اورترقیوں کا ”امام” بن کر پوری دنیا کو اپنا ”مقتدی” کیوں بنالیا ہے؟ اور اہلِ حق، مخلصین اور درد مندزوال کے کھنڈر پر کھڑے ہو کر نصرتِ الٰہی کی آمد کے انتظار میں اپنی قوم کی بدحالی کا مرثیہ کیوں پڑھ رہے ہیں۔؟ یہ بہت بڑی فطری اورعملی سچائی ہے لیکن ہم اکثراس سچائی سے شعوری یا غیر شعوری طور پر مزاحم ہیں۔ ہم منصوبہ بندی تو کرتے ہیں مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی کاغذی ثابت ہوتی ہے۔ ہم نئے خیالات، نئے تصورات اور نئے رجحانات کو بالعموم اتنی سختی سے رد کر دیتے ہیں گویاوہ ”بدعتِ سیئہ” ہوں اس لیے ہمیں مفید آئیڈیاز کے استعمال کی آشنائی ہے اورنہ ہی اس کے بین السطورمیں پوشیدہ انقلابات کی آہٹ کا احساس۔
مدارس اسلامیہ ہی کولے لیں۔ یہ نہایت گہرے خلوص اور بے پناہ جذبۂ دینی کی بنیاد پروجود میں آتے ہیں لیکن دہائیاں گزر جاتی ہیں ان کے منصوبے حیطۂ عمل کے آنے کے انتظارمیں کاغذوں میں بے چین رہتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی پروجیکٹ پہلے شروع کرتے ہیں اوراسے کامیابی کے ساتھ چلانے کی طرف بعد میں غورکرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کس طرح ہوگی، اسٹاف کی تنخوا ہیں کیسے پوری ہوں گی اوراس کے دیگر اخراجات کس مدسے مکمل ہوں گے۔ ادارے کے تصورِذہنی سے لے کر اس کے وجودِ عملی تک صرف ایک ہی لفظ ہمارے ذہنوں میں گونجتا رہتا ہے ”چندہ”۔ مدارس اسلامیہ کاسسٹم ایسابنادیاگیاہے کہ بغیر چندے کے ان کا تصور بھی محال ہے اورہم روایت کے اس قدراسیرہیں یا اسیر کردیے گئے ہیں کہ دوسرے رخ پرسوچنے سے ہی ہمارے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔
ممبئی عروس البلاد ہے۔ یہاں ہرسال رمضان المبارک کے مہینے میں پورے ملک سے سفرا چندے کے لیے تشریف لاتے ہیں اور ہر سال اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے اسی طرح برابر جاری ہے مگر مدارس کے مسائل بجائے کم ہونے کے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بار بار چند ے کے مطالبے سے مخیرین بھی جھنجھلا جاتے ہیں اور کبھی کبھار قصداً یا سہواًسفراکی شان کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جاتی ہے توہم شکوہ سنج ہوجاتے ہیں کہ یہ دولت مندکتنے گستاخ، گھمنڈی اورجاہل ہیں۔ اس سلسلے میں بعض دنیا دار اور دین بیزارقسم کے لوگوں کے ریمارکس یقیناہمیں خون کے گھونٹ پینے پر مجبور کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ سوچ کراطمینان نہیںکر لینا چاہیے کہ یہ ان کی علمادشمنی ہے۔ ہمیں ان کے ”شر”سے ”خیر” کا پہلو دریافت کرنا چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہورہی ہے تواعتراف نہ سہی ہمیںاس کا احساس ضرورہونا چاہیے کہ اصلاح کی نموکاامکان باقی رہے۔
ذمے دارانِ مدارس کواب اس ”اسیری”سے باہر نکلناہو گا، انہیں مدارس کے نام پرایسے مستحکم اور تعمیری کام کرنے ہوں گے جو مدارس کوہمیشہ کے لیے چندے سے آزاد کر دیں۔ مثلاً مکانات تعمیر کرادیں، شاپنگ مال بنوادیں، چھوٹے چھوٹے شہروں میں دکانیں بنوادیں، کھیت وغیرہ خریدلیں۔جس طرح اپناذاتی کاروبارکرتے ہیں اسی طرح کا کوئی کاروبارمدرسے کے لیے کروادیں تاکہ ان سے حاصل ہونے والا منافع مدرسے کے سارے اخراجات کے لیے کافی ہوجائے، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ آئے ۔جن مدراس کے اخراجات کم ہیںان کے لیے بڑاآسان طریقہ یہ ہے کہ ادارے کی عمارت کئی منزلہ بنادی جائے اور گرائونڈ فلور پردکانیں بنادی جائیںتاکہ ان کے کرائے سے ادارے کے اخراجا ت پورے ہوتے رہیں۔ان کے علاوہ سیکڑوں ذرائع ہیں جنہیںزیر استعمال لایا جاسکتا ہے۔
ایک بڑی اہم وجہ سرمایہ داروں کاتعلیمی ذوق نہ ہوناہے۔ ایک گائو ں ایک شہرکے مخلص دولت مندیہ طے کرلیں کہ ہم سب مل کر اپنے مدرسے کو فروغ دیں گے تو ہرگائوں اور ہر شہر کے مدرسے کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔دوچارسرمایہ دارمل کرکسی ایک مدرسے کو گود لے سکتے ہیں۔ کم خرچ والے ادارے کے لیے کوئی ایک سرمایہ دا ر عہد کر لے کہ ہم امسال ہم مکمل طورپراسی کاتعاون کریں گے۔ ہمارے سرمایہ دارحضرات سب کو خوش کرنے اورسب کا تھوڑا تھوڑا تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن اس سے کسی ایک کابھی بھلا نہیں ہوتا۔ اگروہ ہرسال یک مشت رقم کسی ایک کے حوالے کردیا کریں اور دوسرے سال دوسرے کوتوذمے دارانِ مدارس کی عقل مندی اور دور اندیشی سے دوچارسال کے اندرمدرسے خودکفیل ہوسکتے ہیں۔
Hazrat Muhammad PUBH
چندہ کرنا یقینا سنت ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھناہوگاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات میں کتنی بارچندہ کیا۔آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کاسلسلہ کبھی شروع نہیں کیا۔ جب ضرورت آن پڑی توحضورکے ایک اعلان پرحضرت ابوبکر صدیق نے اپناپورااثاثہ حاضرخدمت کردیا، حضرت عمرفاروق اعظم اپناآدھامال لے آئے اورحضرت عثمان غنی نے ایک تہائی دولت حضورکی خدمت میں پیش کردی ۔یہ ایک ہنگامی ضرور ت تھی۔جب کہ ہم اسی کوبنیادبناکرہرسال رمضان المبارک میں ”ہنگامی ضرورت ” پیدا کرلیتے ہیں۔
آپ کوحیرت ہوگی کہ ممبئی کی درجنوںپرانی مساجدکے نام کروڑوں کی پراپرٹی ہے، انہیں چندے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مینارہ مسجد،اسماعیل حبیب مسجد،زکریامسجد،حمیدیہ مسجد،جامع مسجد وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ان مساجد کے بانیان کی دوراندیشی کو ہزار بارسلام۔اللہ عزوجل ان کی قبروں کو ٹھنڈا رکھے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم جب کوئی ذاتی کام کرتے ہیں، کاروبا ر شروع کرتے ہیں،اپنی بہن ،بیٹی کی شادی کرتے ہیںیاکوئی بھی بڑا قدم اٹھاتے ہیںتوہم اس کی تکمیل کے لیے جی جان لگادیتے ہیں،کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، کسی سے امیدنہیں رکھتے لیکن جب کوئی دینی کام کرتے ہیںتولوگوں کی جیبوں پر نظر کیوں جاتی ہے؟ یقین کیجیے مدارس اورمساجدکی شان سے یہ فروں ترہے کہ تعاون کے لیے اشتہارا ت شائع کیے جائیں اورگلی گلی ،چوراہوں اورشاہ راہوں پر آویزاں کیے جائیں۔کیاآپ نے کسی چرچ ،کسی مندر،کسی گردوارے ، قوم مسلم کو چھوڑ کر کسی بھی قوم کے کالج اسکول کاکبھی چندہ ہوتے دیکھا ہے۔
ان کے سفرا کو دردربھٹکتے دیکھاہے ؟ان کی کروڑوں اربوں کی جائداد ہے ، ان کے کچھ مخصوص لوگ ہیںجوبغیرکسی مطالبے کے اپنی اپنی ذمے داریا ں پوری کرتے رہتے ہیں۔آپ شایدیقین نہ ہوکہ بظاہر تعاون کے محتاج یہ ادارے ہرسال نہ جانے کتنوں کاتعاون کرتے ہیں اورہمارے ضرورت مندمسلم بھائی بہن بھی وہاںجاکراپنی حاجتیں پوری کرتے ہیں اوراپناضمیروایمان گروی رکھ کرواپس آتے ہیں ۔یقین نہ آئے تو ممبئی کے علاقۂ ماہم کے چرچ کاایک باردورہ ضرور کر لیجیے۔
حافظے میں نوٹ کرلیجیے کہ دوربدل گیاہے ،اب عوامی چندے کا دور نہیں۔آپ کا اخلاص اپنی جگہ ،آپ کاجذبہ ٔ دینی مسلم ،آپ کے حوصلے کو ہزاربارسلام مگرجب تک مدارس ،مساجدیااسلامی مراکزکے لیے کوئی ایکشن پلان تیارنہیں کریں گے ،کامیابی دورکھڑی مسکراتی رہے گی ،آپ کے پاس ہرگزنہیں آئے گی۔ہم میں سے نہ جانے کتنے لوگ یہ سوچ کرمطمئن ہوجاتے ہیں کہ فلاں کوامریکہ سے پیسہ آتاہے اورفلاں کو سعودیہ سے ۔ان سے میراسوال یہ ہے کہ کیاآپ کی قوم کے پا س کم سرمایہ ہے؟لیکن کوئی حکمت عملی نہیں ا س لیے سب بکھرجاتا ہے۔
Ramadan
یہ سطورنہایت ہم دردانہ جذبات سے مغلوب ہوکرلکھی گئی ہیں، خدارااسے تنقیدنہ سمجھیں۔رمضان المبارک میں اہلِ ثروت مدارس کے لیے اپنے خزانے کادہانہ کھولتے ہیں۔ ناچیزاس مقدس مہینے میں اپنا یہ احساس بطور ”چندہ ”سفراے مدارس کے حوالے کر رہاہے۔
تحریر:صادق رضا مصباحی، ممبئی رابطہ:09619034199 ای میل:sadiqraza92@gmail.com