اب تک اسرئیلی بربریت کے نتیجے میں غزہ میں 575 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں ۔جن میں بڑی تعداد خواتین اور چھوٹے بچوں کی ہے ۔اور تقریبا 3500 سے زائد افراد زخمی ہیں ۔ ہسپتال مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیںاور تقریبا ایک لاکھ افراد نقل مکانی کر گئے ہیں۔ حماس سے جھڑپوں میں اب تک 25 صہیونی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی بربریت کی ویڈوزدیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج کے اس دور میں مسلمان کا خون کتنا سستا ہے ۔دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں پر کفار کے ظلم وستم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
رمضان کے اس مقدس مہینے میں جب مسلمان روزے رکھ رہے ہیں اور خدا کے حضور عبادات میں مشغول ہیں تو دوسر ی طرف اسرائیل کی جانب سے غزہ سے داغے گئے راکٹوں کا بہانہ بنا کر غزہ کے نہتے اور مظلوم لوگوں پر ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی گئی ہے ۔جب سے اسرائیل کا ناپاک وجود قیام میں آیا ہے تب سے لے کر آج تک اسرائیل نے مظلوم اور بے بس فلسطینوں پرعرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے ۔بظاہر تو اسرائیل دنیا کو یہ کہہ رہا ہے کہ یہ کاروائی حماس کے خلاف ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے حقیقت میں اسرائیلی افواج نہتے اور عام شہریوں کو آگ و خون میں نہلا رہی ہیں۔
جب حماس نے 2006 میں باقاعدہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا تب تک امریکہ اور یورپی طاقتوں کو حماس کے انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ ان کو حماس کی کامیابی کا یقین نہیں تھا ۔لیکن انکے یقین کے برعکس جب انتخابات میں حماس نے واضح کامیابی حاصل کی تو یہ بات عالمی طاقتوں کی برداشت سے باہر تھی ،اسرائیلی حکومت حماس کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔اب بھی اسرائیل نے حماس کے خلاف کاروائی کی آڑ میں مظلوم بچوں اور عورتوں پر اپنی وحشت کا بازار گرم کر رکھاہے ۔اسرائیل کی ظلم و زیادتی اور بربریت پر عرب لیگ اور دوسرے عالمی ممالک کی بے حسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
صر ف ترکی واشگاف انداز میںاس ظلم اور بر بریت کی مذمت کر رہا ہے ترکی نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ۔اس کے علاوہ اب تک صرف 2یا3اسلامی ممالک کی طرف سے زبانی جمع خرچ پر مبنی بیان جاری کر کے اپنی ذمہ داری ادا کر دی گئی ہے۔ ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کے حکمران اپنے مفادات کی وجہ سے یا پھر امریکہ کے خوف سے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کی ہی وجہ سے اسرائیل عالمی قوانین کو پائوں تلے روند کر رقص ابلیس میں مصروف ہے۔
عالمی میڈیا اور ہمارا ملکی میڈیا جو ایک ملالہ کو گولی لگنے پر تو بھر پور شور مچاتا رہا ہے ،لیکن سینکڑوں معصوم فلسطینی بچوں کی شہادت پر آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے ۔اور اپنے پورے بولیٹن میں صرف ایک چھو ٹی اورسرسری سی خبر چلا کر حق صحافت ادا کرتا دکھائی دیتا ہے ۔صرف عالمی میڈیا اور عالمی رہنما ہی نہیں بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے پوری امت مسلمہ ہی مجرمانہ خاموشی سادھے بیٹھی ہے ۔ ایک طرف فلسطینی عوام اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور اپنے پیاروں کے کفن خرید رہے ہیں ،تو دوسری طرف امت مسلمہ ان سب باتوں سے بے نیاز زورو شور سے عید کی خریداری میں مصروف ہے۔
اسرائیل کے فلسطین پر حالیہ حملے کے پس پردہ حقائق کیا ہیں ،یہ مشہور مصنف رابرٹ فسک نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں بیان کیے ہیں ۔اگرچہ اسرئیل ان حقائق کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ،مشرق وسطی اور بالخصوص فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ اور سیاست کے ماہرین نے اسرئیل کے اس خوفناک منصوبے سے پردہ اٹھایا ہے ،جس کے مطابق یہ یہودی ملک، فلسطین کو چاروں طرف سے گھیر کر باقی عرب ممالک اور دنیا سے اس کا رابطہ ہمیشہ کیلئے کاٹنے کی تیاری کر چکا ہے اور اگر اسرائیل اپنے اس مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
Palestinian
تو اس نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا ۔غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور اس چھوٹے سے علاقے میں تقریبا 15 لاکھ فلسطینی آباد ہیں،یہ فلسطینی اس سے پہلے اس جگہ آباد تھے جہاں پر اب اسرائیل واقع ہے ۔1948 میں فلسطینی عرب (حج)نامی جگہ پر آباد تھے جہاں پر اسرائیلی افواج نے قبضہ کر کے ان کو غزہ کی طرف دھکیل دیا جہاں اب یہ پناہ گزینوں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔اسرائیل اب فیصلہ کر چکا ہے کہ فلسطین کی مشرقی سرحد پر قبضہ کر لیا جائے ۔یہ علاقے دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہیں۔
ان علاقوں پر قبضے کے بعد فلسطین لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرئیلی قبضے میں آجائے گا ۔اب اسرائیل ) ISIS)کی اردن کی طرف سے پیش قدمی کو روکنے کے بہانے سے اپنی افواج مغربی کنارے کی طرف بڑھانے کا منصوبہ بنا چکا ہے ۔جبکہ اس کا اصل مقصد فلسطین پر قبضہ کرنا ہے۔اب جب ایک طرف تو اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ناپاک منصوبہ تیار کر چکا ہے۔
تو دوسری طرف اسرائیل کی اس بد ترین بربریت اور گھناونی سازش پر عالمی طاقتیں خاموشی سادھے بیٹھی ہیں ۔کیا اقوام متحدہ کے پاس طاقت ہے کے وہ معصوم فلسطینی شہریوں پر ہونے والے حملے رکوا سکے؟نہیں کیونکہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن امریکہ کبھی بھی ایسی قرارداد کی حمائت نہیںکرے گا جو اسرائیل کے خلاف ہو۔امریکہ اسرائیل کی حمائت میں ویٹو پاور استعمال کر ے گا جیسے چین اور روس نے شام کے خلاف پیش کی گئی قراردادوں پہ استعمال کی ۔اقوام متحدہ کا نظام عالمی امن کیلئے ہمیشہ سے ہی انتہائی مایوس کن رہا ہے۔
کیونکہ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی ہٹ دھرمی اور ضد مسائل کو جوں کا توں رکھتی ہے۔ اسرائیل کا اگلا متوقع نشانہ لبنان اور اردن ہو سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں اور عسکریت پسندوں کو بھی انہیں ممالک کی حمائت حاصل ہے ۔اس ساری صورت حال کے بعد بھی اگر ہمارے مسلمان حکمر انوں نے اسرائیل کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو اس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ کو بھگتناپڑے گا۔