کسی بھی حکمت عملی کے بغیر طاقت کا استعمال کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور منصوبے کے مطابق شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس آپریشن میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ پاک آرمی کے آفیسرز اور جوان بھی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے ایک المیہ جنم لے چکا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن کے سوا کوئی اور آپشن باقی نہیں بچا تھا ۔کراچی ائیر پورٹ پر حملے کے بعد سیاسی قیادت کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا اور قوم جو کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار تھی امن کے لیے ترس رہی تھی۔
اس لیے اس آپریشن سے قوم کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ چونکہ یہ آپریشن ایسے علاقہ میں ہے جہاں سو فیصد کامیابی ممکن نہیں جس کا اظہار پاک فوج کے آفیسرز بھی کر چکے ہیں اس لیے بہت سے خدشات بھی موجود ہیں ۔بنیادی طور پر اس آپریشن کے اہداف تحریک طالبان پاکستان ، پنجابی طالبان ، مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ ، اسلامک موومنٹ آف پاکستان اور القاعدہ کے وہ عناصر ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ پاک فوج کا دعوٰی ہے کہ اسی فیصد علاقہ کو انتہا پسندوں سے صاف کروا لیا گیا ہے ۔ یہ دعوٰی اس حد تک تو مانا جا سکتا ہے کہ میران شاہ سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ، بارودی مواد بنانے کی فیکٹریاں اور بارود کی بڑی مقدار کو تباہ کر دیا گیا ہے لیکن عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ وہ لوگ جو ہر دہشت گردی کی کارروائی کے بعد عالمی و مقامی میڈیا کو فون کر کے ذمہ داری قبول کرتے تھے یا جن کی جانب سے آئے روز بیانات جاری ہوتے تھے وہ کہاں ہیں۔
ان کی گرفتاری یا ہلاکت کی خبر ابھی تک کیوں نہیں آئی ۔ وہ دہشت گرد جو مارے جا رہے ہیں ان کی پہچان کیا ہے۔ ان تنظیموں کی قیادت کہاں ہے ۔ عدنان رشید کی گرفتاری کی خبر نے ان میں سے کچھ سوالات کے جواب فراہم کر دیے تھے تاہم ابھی تک آرمی کی جانب سے عدنان رشید کی گرفتاری کی خبر کی واضح طور پر تصدیق نہیں کی گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج کا شمار پیشہ وارانہ اور ہر قسم کے خطرات سے نبٹنے والی افواج میں ہوتا ہے ۔ قبائلی علاقوں خصوصاً سوات اور جنوبی وزیرستان میں سابقہ تجربات بھی ان کو فائدہ دے سکتے ہیں ۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ کیا اس آپریشن سے پہلے مکمل تیاری کر لی گئی تھی یا کراچی ائیر پورٹ پر حملے کے فورا ً بعد جلد بازی میں آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ۔آپریشن سے قبل جن معاملات کا خیال رکھنا ضروری تھا ان میں سے سرفہر ست افغان سرحد سے انتہا پسندوں کا فرار ہونا تھا ۔ اس کے لیے خاطر خواہ انتظام کرنا اور فرار کے راستوں کو بند کرنا حکمت عملی کا ایک اہم مرحلہ تھا تاہم ایسا نظر آ رہا ہے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ افغان سرحد کے دوسری پار موجود افغان آرمی نے اپنے چیک پوسٹوں پر نگرانی میں کمی کر دی تھی جس کی وجہ سے بہت سے متاثرین وزیرستان افغان سرحد پار کر گئے اور ان کی آ ڑ میں بہت سی تنظیموں کے اہم کمانڈر سرحد پار کر گئے جو اس وقت افغان علاقوں میں موجود ہیں ۔ مولوی فضل اللہ تو پہلے ہی افغانستان میں موجود ہے اس صورت میں اہم کمانڈروں کا وہاں پہنچنا اور پھر فضل اللہ سے جا ملنا کوئی نیک شگون نہیں ہے خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ افغان آرمی پاکستان مخالف جذبات بھی رکھتی ہو اور آئے دن وہاں سے پاکستانی چوکیوں پر حملے بھی ہو رہے ہوں۔ یہ خدشہ بھی بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ جو لوگ ان انتہا پسندوں کو اسلحہ ، کرنسی اور تربیت فراہم کرتے تھے انہوں نے ان کو افغانستان میں پناہ دے دی ہے تاکہ جب حالات معمول پر آئیں تو یہ دوبارہ وزیرستان میں پہنچ کر اپنی کارروائیوں کا آغا ز کر دیں۔
مختلف مقامات پر چھاپوں کے دوران انتہا پسندوں کے ٹھکانوں سے بھارتی کرنسی کا ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان عناصر کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے اور بھارت ہی افغان آرمی کو تربیت فراہم کر چکا ہے کڑی سے کڑی ملائی جائے تو بھارت افغانستان اور امریکہ کی سازش کو سمجھا جا سکتا ہے۔حکمت عملی کا ایک نہایت اہم نکتہ یہ تھا کہ آپریشن سے پہلے جو انتہا پسند عناصر وزیرستان میں موجود تھے ان میں سے بہت سے پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور وہ چند پالیسیوں کے خلاف تھے اگر ان عناصر کو علیحدہ کر لیا گیا تو آپریشن بہت کم مدت میں بڑی کامیابیا ں سمیٹ سکتا ہے اور وہ عناصر جو دوسروں کے کہنے پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ایجنڈہ رکھتے ہیں انہیں نہ صرف تنہا کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں بے نقاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جو لوگ اس آپریشن کے دوران گرفتار ہو رہے ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی کی جا ئے گی ۔ تحفظ پاکستان بل کی منظوری کے بعد کیا ان لوگوں کو کیے کی سزا مل سکے گی اور وہ لوگ جن کی انتہا پسندی کے راستے سے واپسی ممکن ہو سکتی ہے ان کی تربیت کا کیا منصوبہ ہے۔یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ان تنظیموں کے ساتھ اکثر ان افراد کی وابستگی ہے جن کے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا ہے کہ یہ جنگ اسلام اور کفر کی جنگ ہے اور وہ اس میں مارے جائیں یا خود کش حملے کریں تو ان کا مقدر جنت ہو گی ایسے لوگوں کو قرآن کی آیات کاغلط مفہوم بتا کر اس راستہ پر لگایا گیا ہے لیکن ان کی اصلاح ممکن ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے تربیتی مراکز کا بندوبست کیا جائے جہاں ان کو قرآن و حدیث کی صحیح تعلیم دی جائے۔مقتدر اداروں کو یہ بات یا د رکھنی چاہیے کہ جہاں قوم کا ایک بڑا طبقہ اس آپریشن کی حمایت میں کھڑا ہے وہاں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو ہر دور میں پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کی ہرزہ سرائی میں مصروف رہتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں۔
North Waziristan Operation
یہ لوگ ”بغض معاویہ” میں ساتھ کھڑے ہیں اور یہ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ کچھ لوگوں کی اصلاح ہو سکے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بے رحم آپریشن کو ہی مسئلہ کا واحد حل سمجھتے ہیں حالانکہ فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی تربیت بھی ازحد ضروری ہے جنہیں گمراہ کیا گیا ۔ آپریشن کی تیاری یقینا بہت پہلے کی جاتی ہے اور اس کے تمام پہلوئوں پر غور کیا جا تا ہے اور عام آدمی پر اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات ضروری ہوتے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ متاثرین کا ہے ۔ حالات دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا ۔متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ اس وقت نہایت کسمپرسی کی حالت میں وقت گزار رہے ہیں ۔بظاہر اس کا آپریشن کی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم مستقل کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے متاثرین کو مناسب سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے ۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قبائلی عوام پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہیں اور یہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہوں نے اپنے گھر بار کی قربان اس لیے دی کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔لیکن اگر ان کو مناسب سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو ان میں سے بعض کی ہمدردیا ں پھر سے انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ہو سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی باعزت اور جلد گھروں کو واپسی بھی ازحد ضروری ہے لیکن اس سے پہلے تمام علاقوں کو ان بارودی سرنگوں سے صاف کرنا بھی بہت ضروری ہے جو انتہا پسند علاقہ خالی کرنے سے پہلے جگہ جگہ بچھا چکے ہیں ۔ بد قسمتی سے ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے تھی لیکن وہ سیاسی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں لگی ہوئی ہیں ۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگی ہوئی ہیں ۔اس وقت ملک و قوم کو اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے ۔ جس طرح افغانستان سے بین الا قوامی طاقتوں کا انخلاء ہو رہا ہے پاکستان کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے قوم دہشت گردی کی آگ میں جل رہی ہے اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں امن و سکون مہیا کیا جائے۔
اس جنگ سے قوم کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ جن میں سب سے اہم توقع ملک میں امن و امان کا قیام اور دہشت گردی کا خامتمہ ہے۔ اگر ہم ان توقعات کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کی ترقی و استحکام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ چند مفاد پرستوں کے علاوہ قوم کا بیشتر حصہ پاک آرمی کے ساتھ کھڑا ہے اس لیے اگر نتائج حاصل کرنے میں دیر ہو گئی تو آئندہ تباہی ہماری وقعات سے بھی ذیاہ تباہی ہو سکتی ہے۔