اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں پارلیمانی رہنما رضا ربانی نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو ایک خط کے ذریعے نجکاری کے جاری عمل پر ہوشیار رہنے اور صوبائی مفادات کے تحفظات کے لیے اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔
ربانی نے موجودہ حکومت کی نجکاری پالیسی کو ‘غیر آئینی اور غیر قانونی’ قرار دیتے ہوئے وزرا ئے اعلیٰ سے کہا کہ وہ آئین کے تحت مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے بغیر ہونے والی نج کاریوں کی اجازت نہ دیں۔ ربانی نے منگل کو پی پی پی میڈیا سینٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خط کی کاپیاں صحافیوں کو بھی فراہم کیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر اور پارٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر نذیر ڈھوکی کی موجودگی میں ربانی نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی عید کے بعد ملک کی تمام ٹریڈ یونینز اور مزدور فیڈریشنز سے رابطے کریں گی تاکہ قومی اداروں کی نجکاری روکنے کے لیے ‘ورکروں کا متحدہ محاذ’ بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی نجکاری کے نام پر اداروں کی چھانٹی کی اجازت نہیں دے گی اور وہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی مزدوروں کے حقوق کے لیے پارلیمنٹ کا فورم یا سڑکوں پر نکلنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔
ربانی نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے اشاروں اور اپنے ‘پسندیدہ کاروباری ساتھیوں’ کو نوازنے کے لیے نجکاری پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کچھ اداروں کی نجکاری کے لیے کئی سال پہلے سی سی آئی کی منظوری کا سہارا لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ پاکستان سٹیل ملز کے ایک مقدمے میں کہہ چکی ہے کہ ‘چونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لہذا مناسب ہو گا کہ سی سی آئی اس معاملے پر دوبارہ نظر ثانی کرے۔
خط میں لکھا تھا ‘ آئین کے آرٹیکل 154 کی شق سات کے تحت اگر آپ کی حکومت سی سی آئی کے کسی فیصلے پر مطمئن نہیں تو وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج سکتے ہیں، جہاں ہونے والا فیصلہ حتمی تصور ہو گا۔ پی پی پی رہنما نے وزرائے اعلیٰ کو نجکاری سے متعلق معاملات کو صوبائی اسمبلیوں میں اٹھانے اور وہاں قرار دادیں منظور کرنے کا بھی مشورہ دیا۔
خط کے مطابق: ‘اگر آپ کی حکومت معاملے کو اہم سمجھے تو وہ متعلقہ صوبائی اسمبلی میں اس پر بحث اور قرار داد کے ذریعے اکثریتی رائے سامنے رکھ سکتی ہے۔ ربانی نے وزرائے اعلیٰ کو مطلع کیا کہ نجکاری کے لیے زیادہ تر اداروں میں ایک سے زائد صوبوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئل اور گیس سے جڑے کئی اداروں کی نجکاری صوبوں کو قدرتی وسائل پر ملکیت کے حقوق فراہم کرنے کے آئینی آرٹیکل 172 کی شق تین کے تحت آتی ہے۔