ماہ صیام آیا بھی اور پلک جھپکتے گزر بھی چلاہے ۔یوں لگتاہے ابھی کل ہی ہلال کمیٹی والے ماہ صیام کا چاند ڈھونڈ رہے تھے۔جو اب عیدالفطر کا چاند ڈھونڈننے میں مصروف عمل ہوں گے۔اب ماہ صیام صرف چند دنوں کا مہمان ہے پھر اگلے سال نجانے کون کہاں ہو گا۔کوئی منوں مٹی تلے سکون سے سو رہا ہو گا تو کوئی بے رحم دُنیامیں مارا مارا پھر رہا ہوگا۔اللہ تعالی کا خاص مہمان ،ماہ رمضان مسلمانوں کے لئے رحمت بن کر آتا ہے ۔مگر افسوس مسلمان افرتفری میں لگے ہیں اس کی خدمت نہیں کر پاتے۔
میرے پیارے دوست اور کالم نگار صفدر علیٰ حیدری نے ابھی کچھ دیر پہلے میسج کیا اور کیا خوب کہا کہ سمندرسب کے لئے ایک سا ہے ،کچھ موتی ڈھونڈتے ہیں،کچھ تیراکی سے لطف لیتے ہیں ،کچھ مچھلیاں پکڑتے ہیںاور کچھ محض پائوں گیلے کرتے ہیں۔ماہ رمضان کا بھی یہی معاملہ ہے۔کتنی خوبصورت بات ہے۔بات سے بات یاد آئی اگر صاحب اقتدار لوگوں کی بات کی جائے تو نانی یاد آجاتی ہے۔مہینوں پہلے ماہ صیام کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہی،مہنگائی کنٹرول کریں گے ،سستے بازاررچائے گے۔تاجر بازار سجاتے ہیں اور صاحب اقتدار بازار رچاتے ہیں۔
یہ کریں گے وہ کریں گے،احتساب ہو گا،مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہوگااور عوام کو ریلف ملے گا۔مگر وہی سیاسی نعرے،وہی سیاست چمکانے کی باتیں۔کسی کے کانوں پر جُوں تک بھی نہیں رینگی۔تاجروں نے کھلے عام من مانی کی۔اپنی مرضی سے اشیاء خوردنوش کے نرخ مقرر کیے۔کتنے ایمان کے پکے ہیں ،اپنوں کا خون نچوڑ کر عیدیں مناتے ہیں۔عام دنوں جو چیز دس روپے ملتی ہے تو ماہ صیام میں چالیس روپے ملتی ہے۔بیچارے وہ بھی سچے ہیں ،سال بھر کے لئے یہی مہینہ ملتا ہے لوٹنے کا ،خون نچوڑنے کا دولت اکٹھی کرنے کا۔یوں سمجھیں ماہ صیام عوام کے لئے صبر کرنے اور ان تاجروں کے لئے عید کا مہینہ ہوتا ہے۔
یہ قانون کی آنکھوں میں مرچیں ڈالتے ہیں اور سیانے تو یہاں تک بھی کہہ گئے کہ قانون تو اندھا ہوتا ہے۔اندھوں کا فائدہ تاجر ہی اٹھاتے ہیں۔حکومت ان کی ہوتی ہے صاحب اقتدار لوگ ان کی انگلیوں کے اشاروں سے ناچتے ہیں۔اپنی بیوئوں کے لئے میک اپ خریدنا ہوتا ہے،بچوں کو لندن ،پیرس بھجوانا ہوتا ہے،تمام تر اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں ۔یہی ماہ صیام میں لوٹ مار کرکے،غریبوں کو لوٹ کر ،ان کے بچوں کو رولاکر اپنے بچوں کی خوشیوں کے لئے ساماں کرتے ہیں۔
وزارت پانی و بجلی کے وزیر ہی کو دیکھ لیجئے۔ماہ صیام سے پہلے شیرکی طرح ڈھار ڈھار کر کہتے تھے کہ ماہ صیام میں سحری اور افطار کے وقت بجلی دستیاب ہوگی۔مگر رمضان شریف کے شروع ہوتے ہی ان کے غبارے کی ہوا نکل گئی اور ان کے وعدے ریت کی دیوار ثابت ہوئے،وہی سیاسی نعرے،وہی سیاسی وعدے جو نہ کبھی پورے ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی پورے ہوں گے۔سیانے کہتے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔اگر انہوں نے وعدے پورے کر دئیے تو اگلی بار ووٹ کون دے گا۔ْسیاست کی شطرنج کی ماہر ہیں کبھی مات نہیں کھاتے۔عوام کو انگلیوں پر نچا سکتے ہیں اور نچا بھی رہے ہیں۔لوڈشیڈنگ نے حد کر دی ہے۔بجلی بھی مہمان کی طرح آتی ہے اور لمحہ بھر ٹھہرنے کے بعد روتا ہوا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے میرے ہاں دو مہمان آئے ۔باتوں سے بات چل نکلی۔ان میں سے ایک کہنے لگا ۔بھائی ہمارے تو مزے ہیں۔میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔وہ کیسے؟جب کہ گرمیوں کے سیزن میں عوام گرمی سے تڑپ رہی ہے اور مہنگائی آسمان کو چھونے کو ہے۔آپ کے مزے کیسے ہیں۔؟موصوف فرمانے لگے۔ارے بھائی صاحب!بڑے بھائی واپڈہ میں ہیں۔بجلی مفت میں ملتی ہے۔گھر میں دو ،دو اے سی لگے ہوئے ہیں۔کیا آپ کے ہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی؟ہوتی ہے جناب ۔مگر ہم نے دو لائینوں سے بجلی لی ہوئی ہے۔ایک لائن سے بجلی جاتی ہے تو دوسری لائن سے آن کر لیتے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے ہم نے ہمسائیوں کو بھی کنکشن دیا ہو ا ہے ۔ہر ماہ ان سے بل کی صورت رقم مل جاتی ہے۔ہوئے ناں مزے۔ہاں بھائی واقعی مزے میں ہو۔میں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔
Pak Army
یہ پاک اسلامیہ ملک ہے جہان کوئی کام پاک ارادوں سے نہیں کیا جاتا۔ہر کام میں شاٹ کٹ ڈھونڈا جاتا ہے۔کیسا اسلامی ملک ہے۔؟جہاں اپنے ہی اپنوں کی جڑیں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔عوام بھوک ،پیاس سے مر رہی ہے ،پاک افواج دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کر رہی ہے اور سیاستدانوں کو فرصت ہی ہے کہ کسی کی طرف دیکھ سکیں۔بس ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔وہ کھا گیا ،میں رہ گیا۔کوئی ہوش نہیں ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ماہ صیام خوشیاں لئے آیا تھا اور غم دیدہ ہوکر سفر رخصت باندھنے کو ہے۔نوے فیصد مسلمانوں نے روزے نہیں رکھے۔
رکھتے بھی کیسے،ایک تو ایمان کمزور،اوپر سے قہر ڈھاتی گرمی،اورسیاستدانوں کے کھوکھلے وعدے۔مسجدوں میں بزرگ نمازی گرمی سے بے ہوش ہوتے رہے اورچند دنوں میں پھر سے مسجدیں ویران ہوتی گئی۔میرے محلے میں روزمغرب اور عشاء کے وقت بچے گلی گلی میں منادی کرتے تھے کہ نمازی حضرات اپنے اپنے گھروں سے وضو بناکر آئیں،کیونکہ مسجد میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی نہیں ہے۔کتنا افسوس ہوتا ہے۔چوبیس گھنٹوں میں چار گھنٹے بجلی ہوتی ہے ۔اگر یہی چار گھنٹے ،نماز کے اوقات میں دئے دئیے جاتے تو کم از کم نمازی نماز سے محروم تو نہ ہوتے۔
آئے ماہ صیام !ہم ضرور بہ ضرور آپ کی مہمان نوازی کرتے ،مگر کیا کریں چند سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔تونے دیکھ ہی لیا۔ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔روزے رکھیں تو کام نہیں ہوتا۔جب کام نہیں کریں گے تو بچوں کا پیٹ کیسے پال سکتے ہیں۔سارا سارادن بجلی نہیں ہوتی اور ہر ماہ بعد ہزاروں کا بل آجاتا ہے۔گوشت کے خواب ہم دیکھتے نہیں اور سبزیاں ساٹھ روپے کلو سے کم نہیں ملتی ،تو ہی بتا ہم کیا کریں۔بس ہم تجھ سے بہت شرمندہ ہیں۔ہم تیری خدمت کرنا چاہتے تھے مگر سبھی ارمان دل میں رہ گئے۔اللہ تعالیٰ سے شکایت نہ کرنا اور ہماری بخشش کا ذریعہ بن جانا۔