حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ، خلیف اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔
نام ونسب آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب وکنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابتدائی زندگی آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.
ہجرت ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا۔ آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ” تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے” مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا.
رسول کریم کی نظر میں رسول کریم نے ایک موقع پر فرمایا “اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔” ایک اور موقع پر فرمایا “جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔ مزید ایک موقع پر فرمایا ” اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔
واقعات وہ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتا گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتا کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر الممنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔
آ پ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا کہ امیر الممنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1- گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2- عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3- باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4- حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
عادات حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔
شہادت یکم محرم کو ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھا رہے تھے۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔