حقیقت کبھی نہ کبھی سامنے آجاتی ہے۔ ”مرکز اطلاعات فلسطین” کی تازہ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی میں جاری ریاستی دہشت گردی کے خلاف نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی پر صہیونی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم سے کم چار فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے عینی شاہدین کے حوالے سے اطلاع دی ہے۔
جمعرات کو رام اللہ میں ”الامعری” پناہ گزین کیمپ سے ایک احتجاجی جلوس نکلا جو مقبوضہ بیت المقدس کی جانب قلندیہ گذرگاہ کی جانب بڑھ رہا تھا کہ صہیونی فوج نے مظاہرین کو روکنے کے لیے ان پر گولیاں چلا دیں۔ صہیونی فوج کی وحشیانہ فائرنگ، لاٹھی چارج اور اشک ایور گیس کی شیلنگ سے چار افراد شہید ہوئے ہیں۔ شہداء میں سے ایک کی شناخت محمد الاعرج کے نام سے ہوئی ہے جبکہ تین شہداء کی شناخت نہیں کی جاسکی۔
اس کے علاوہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔ ایک زخمی کے سرمیں گولی لگی ہے جس کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی وحشیانہ فائرنگ کے جواب میں فلسطینی مظاہرین پست ہمت ہونے کے بجائے مزید پرعزم ہوگئے۔ انہوں نے غاصب فوج پر سنگ باری کی اور متعدد صہیونی فوجی بھی زخمی ہوئے۔ قابض فوج نے مغربی کنارے کے مرکزی شہر رام اللہ میں فلسطینی شہریوں کا احتجاجی جلوس پرتشدد طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ فلسطینیوں کو بری طرح کچلا گیا۔
اندھا دھند فائرنگ اور اینسوگیس کی شیلنگ سے درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریلی میں الامعری پناہ گزین کیمپ کے کوئی 300 افراد شریک تھے جن میں سے بیشر نوجوان تھے۔ وہ صہیونی فوج کی غزہ کی پٹی میں جاری وحشیانہ دہشت گردی کے خلاف سخت نعرے بازی کررہے تھے۔ صہیونی فوج اور پولیس نے مظاہرین کو کوئی پیشگی وارننگ دیے بغیر ان پر گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں چار افراد موقع پر شہید ہوگئے جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں سے پانچ کی حالت خطرے میں بتائی جاتی ہے۔
ادھر اقصیٰ فاؤنڈیشن و ٹرسٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ صہیونی فوج کے مسلح دستوں نے مسجد اقصیٰ میں موجود روزہ داروں اور معتکفین کو بھی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ تنظیم نے صہیونی فوج اور پولیس کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دشمن فوج کسی بھی وقت مقدس مقام میں گھس کر وہاں پرعبادت میں مصروف شہریوں کو زدو کوب کرتی ہے۔اقصیٰ فاؤنڈیشن کے مطابق قابض صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور قبلہ اول میں نمازیوں کے خلاف چڑھائی پر مقامی فلسطینی ایبادی میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے سیاست کو خیرباد کہ دیا۔ جس کے بار ے میں مسلم ممالک میں مختلف قیاس آرئیاں پائی جارہی ہیں۔ان تمام سوالات کے جواب میں 24 اگست 2014 جمعرات کے روز شمعون پیریز کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب میں انہوں نے غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائی کا دفاع بھی کیا۔پیریز نے مسلم ممالک قیاس آرئیاںکے جواب میں سارا ملبہ حماس پر ڈالتے ہوئے کہا کہ حماس نے جان بوجھ کر شہریوں کو نقصان کی راہ میں دھکیلا۔
تاہم انہوں نے واضح الفاظ میں یہ بھی کہا کہ ان کا ملک اسرائیل غزہ کے لوگوں کا دشمن نہیں ہے۔ پیریز کے بقول اسرائیل کو غزہ پٹی کے بحران سے منسلک غلطیوں اور اچھی چیزوں کے حوالے سے ہونے والی بحث کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔شمعون پیریز 1923ء میں یورپی ملک پولینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون کے قریبی ساتھی کے طور پر کیا تھا۔
Nawaz Sharif
قریب سات دہائیوں پر مشتمل اپنے سیاسی کیریئر کے دوران پیریز ایک درجن کا بیناؤں کا حصہ رہے اور دو مرتبہ ملکی وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 1993ء کی ایک عارضی امن ڈیل کے لیے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابین اور سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ہمراہ نوبل امن انعام کا شریک حقدار بھی ٹھہرایا گیا۔
شمعون پیریز مشرقی وسطی تنازعے کے حل کے لیے قدرے اعتدال پسندانہ سوچ رکھتے ہیں اور وہ اسرائیلی و فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔ تاہم ان کی جگہ اب صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ریوون ریولِن نے نہ صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں اہم کردار ادا کیا تھا بلکہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بھی خلاف ہیں۔ انہیں صدر کے عہدے کے لیے اسرائیلی پارلیمان نے گزشتہ ماہ ہی چنا تھا۔