ڈیرہ اللہ یار(خصوصی رپورٹ) جعفرآباد بلوچستان کا وہ واحد ضلع ہے جو 2010 ء اور 2012 ء کی بد ترین سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔ سیلاب متاثرین کو اب چھوتا سال ہے لیکن ان کی جانی و مالی نقصان میں 700 سے زائد لوگ ہلاک ہو ئے تھے اور 7 سے 10 لاکھ لو گ متا ثر بھی ہوئے تھے ۔ رمضان المبارک کی ابتدائی ایام تھے۔
سخت گرمی بھی تھی ۔ لوگ اپنے کی گھروں سے بے گھر ہو کر در بدر ہوگئے۔ لاکھوں مسافرنے سبی ، کوئٹہ ، مستونگ ، منگوچر خالق آ باد ، قلات نکل مکانی شروع کر تو مسائل بے پناہ اور وسائل کی کمی۔ درحقیت بے سہارا ، غریب اور لاچار ایسے بھی لوگ جن کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں ہے جو جعفر آباد سے رمضان المبارک کے مہینے میں گرمی کی شدت باوجود بھی 300 کلومیٹر بھلے ایک دو ہفتوں میں لیکن پیدل سفر کر کے کوئٹہ و دوسرے علاقوں میں نکل مکانی کی تھی ۔ صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان جو اتفاق سے وزیر تھے کسی نے ان کی مدد بھی نہیںکی ۔صوبائی و وفاقی حکومت کی امداد نا کافی تھا اور نہ ہی ضرورت کے عین مطابق تھا۔
جو تھا آٹے میں نمک کے برابر تھا ۔ جو امداد دیا گیا وہ متاثرین کو آ پس میں لڑا لڑا کر تقسیم بزریعہ کرپشن کی گئی ۔ لیکن بین الاقوامی اداروں کی طرف سے حکومت پاکستان کے ساتھ وطن کارڈز کے زریعے عوام میں کیش رقم تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ ایگری منٹ کے مطابق کے ایک لاکگو بیس ہزار روپے فی خاندان کو فراہمی کی جائے گی جس کی مدد ایک سال تھا لیکن تاحال اب چھوتا سال ہے کہ سیلاب متاثرین جعفر آ باد اس رقم کے لئے در بدر ہے۔
بینکوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بہت متاثرین مایوس ہوئے ہیں اور کئی متاثرین نے ناکارہ وطن کارڈ کو غصے سے پھینک بھی دیا ہے۔ جعفرآباد میں لگ بھگ 47 ہزار خاندوں میں وطن کارڈ تقسیم ہوئی ہیں۔ جن میں سب ایک پہلی بار وطن کارڈ کی اجراء کے ساتھ 20000 روپے تو موصول ہوئے مگر باقی ایک لاکھ روپے فی خاندان کے ان کے لئے عزاب بن چکی ہیں۔
حکومت اورحبیب بینک کی ملی بھگت نے اربوں روپیہ کی کرپشن کی ہے۔ سیلاب متاثرین کے ساتھ ہونے والی اس ظلم کی داستان ارباب اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آئی ڈی پیز کو امداد کرنے میں تاخیر نہیں ہو رہی ہے تو سیلاب متاثرین کی امداد میں کیوں ہوا ہے ؟