فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کو تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں فلسطینی شہداء کی تعداد 1000 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعدادبھی کم وبیش 6000 ہو گئی ہے۔شہید ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ اسرائیلی فوج زمینی اور فضائی حملوں میں عام شہریوں خصوصاً بچوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں سمیت ہر شہری تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہے۔اسرائیل نے جارحیت کا آغاز آٹھ جولائی کو فضائی حملوں سے کیا۔
دس دن کے بعد جارح فوج نے زمینی حملے بھی شروع کر دیئے۔ صہیونی فوج کی طرف سے زمینی آپریشن کے ساتھ ساتھ فضاء اور سمندر کی طرف سے بھی وحشیانہ حملے جاری ہیںجن سے عام شہری ہی نشانہ بنے ہیں۔یواین کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی مشیر برائے انسانی حقوق اور پرنسپل سیکرٹری فالیری آموس نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی صورت حال نہایت خوفناک ہے اور اسرائیلی فوج کی بمباری سے ہر گھنٹے میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی گولہ باری سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ فلسطینی شہداء کی اکثریت عام شہری ہے جس کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے شہید ہونے والے فلسطینیوں میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے جن کی عمریں پانچ ماہ سے سترہ سال تک ہیں۔ یورپی یونین نے بھی صہیونی فوج کی طرف سے بے گناہ شہریوں کی بڑھتی ہوئی شہادتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل بچوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی ترجمان مایا کوسیائنٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں تین ہفتوں کے دوران غزہ میں 190 کم عمربچے شہید ہو چکے ہیں۔یورپی یونین کو ان شہادتوں پر گہری تشویش ہے۔ یورپی یونین اسرائیل سے مطالبہ کرتی ہے۔
وہ معصوم شہریوں کا قتل عام فی الفور روک دے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنگ سے متاثرہ غزہ کے شہریوں کی امداد کے لیے شہر کے تمام راستے غیرمشروط طور پر کھولے جائیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو نہ تو انسانی اقدار کا احساس ہے اور نہ ہی وہ جنگ بندی کو خاطر میں لا رہا ہے۔ امریکہ کی اپیل پرہفتہ( 26 جولائی ) کو حماس اور اسرائیل کے درمیان 12گھنٹے کی جنگ بندی ہوئی۔ اسرائیل نے جنگ بندی شروع ہونے سے پہلے ہی مختلف حملوں میں 85فلسطینی شہید کر دئیے۔
جنگ بندی کے چند گھنٹوں بعد ہی صہیونی فوج نے توپ خانے سے گولہ باری کر کے ایمبولینس کو تباہ کر دیا۔اسرائیلی حملے سے ایک درجن کے قریب مساجد شہید ہو چکی ہیں۔ فرض نماز کے اوقات کے دوران اسرائیل کی طرف سے مساجد پر بمباری کی جاتی ہے۔ صہیونی فوج کی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے چھ سکول مکمل طور پر تباہ جبکہ درجنوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ یہ اسکول 1,40,000 فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہ ہیں۔صہیونی جارحیت کے خلاف دنیا کا ہر امن پسند شہری سراپا احتجاج ہے ۔ پوری دنیا میں اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سخت احتجاج کے باوجود صہیونی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے غزہ کی پٹی میں آپریشن کو مزید وسعت دینے کی دھمکی دی ہے۔
انتہاپسنداسرائیلی یہودی مذہبی رہنما ”دوف لیئور” نے ایک بیان میں اسرائیلی فوجی جارحیت اور غزہ میں اجتماعی قتل عام کی حمایت کی ہے۔ انتہا پسند یہودی ربی کے مطابق یہودی فوجی اس وقت تورات کی تعلیمات کے عین مطابق فلسطینیوں کے خلاف مقدس جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے بھی وائٹ ہائوس میں سالانہ افطار کے موقع پر جمع مسلم ممالک کے سفیروں کے سامنے اسرائیل کا وکیل بن کر تقریر کی ۔ امریکی صدر نے فلسطینیوں کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم قرار دے دیا۔اوبامہ نے کہا کہ ہم اسرائیل کے حق دفاع کے حوالے سے بھی بہت واضح ہیں، میں سمجھتا ہوں اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی اداروں کا دوہرا معیار بھی سامنے آگیا ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے مسلمانوں کے لئے انصاف کے پیمانے الگ ہیں اور غیر مسلموں کیلئے الگ۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک فلسطین پر ظلم وتشدد کا بازار گرم کئے ہوئے ہے ۔اس دوران ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ سینکڑوں فلسطینی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا اسرائیلی جیلوں میں کاٹ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے اس مسئلہ پر چپ سادھ رکھی ہے۔ بھارت گذشتہ 67 سالوں سے جموں کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن سلامتی کونسل اس پر گونگی بنی ہوئی ہے۔
United Nations
بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں بھی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے ہی عراق اور افغانستان پر امریکا اور نیٹو ممالک کے حملے کو قانونی جواز دیا۔مگر جہاں پر معاملہ مغربی ممالک کے مفاد ، دلچسپی یا عالم کفر کا ہو، سلامتی کونسل فوراً جاگ جاتی ہے۔ انڈونیشیا میں عیسائی ریاست مشرقی تیمور کے قیام اور سوڈان میں تیل کے ذخائر سے مالامال جنوبی علاقے کو علیحدہ ملک بنانا اس کی واضح ترین مثالیں ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں فلسطینی مجاہدین کی طرف سے مزاحمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے عسکری ونگ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران مجاہدین کے ہاتھوںکم از کم 59 اسرائیلی فوج ہلاک جبکہ 300 زخمی ہوئے ہیں۔ مجاہدین کی کارروائیوں میں 44 اسرائیلی ٹینکوں کو غیرمعمولی نقصان پہنچا۔ایک اسرائیلی فوجی کو بھی جنگی قیدی بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیرانصاف اور سینئیرصہیونی خاتون سیاست دان زیپی لیونی نے بھی اسرائیل کو پہنچنے والے نقصان کا اعتراف کر لیا ہے۔ فیس بک پر اپنے ایک بیان میں مسز لیونی نے کہا کہ موجودہ سنگین حالات میں ہمیں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔
دریں اثناء دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی اپیل پر جمعة الوداع کو یوم سوگ منایا گیا۔ ملک بھر میں مختلف دینی وسیاسی جماعتوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلیاں نکالی۔اسلام آباد میں سرکاری عمارتوںپر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے اپنے ایک بیان میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے فلسطینی شہریوں پر سفاکانہ مظالم کی شدید مذمت کی ہے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرے کئے گئے جن میں کم وبیش ایک لاکھ کے قریب پاکستانیوں نے شرکت کی۔
جماعت اسلامی،جماعة الدعوة،علمائے اہلسنت، پاکستان علماء کونسل ،مجلس وحدت المسلمین اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ سمیت ملک بھر میں نماز جمعہ کے بعد صہیونی فوج کے جنگی جرائم کے خلاف ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے۔ مظاہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کا فوری نوٹس لے۔ صوبائی دارالحکومت لاہورمیں سب سے بڑا پروگرام جماعة الدعوة کے زیراہتمام چوبرجی چوک میں ہوا جس میں لاہور اور گردونواح سے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ اس موقع پر جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے کہا کہ فلسطینی مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے اور اسرائیلی درندگی کے خاتمے کے لئے ساری امت پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔
فلسطینی مسلمان بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے اٹھ کھڑے ہوں’ پوری پاکستانی قوم کا بچہ بچہ ان کے ساتھ ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں منصورہ کے باہر ملتان روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہتے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر اسرائیل کو عالمی دہشت گرد ملک قرار دیا جائے اور اقوام متحدہ کی 70 سے زائد امن کی قرار دادوں کو مسترد کرنے پر اسرائیل کی رکنیت خارج کی جائے۔ پاکستانی قوم خون کے آخری قطرہ تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ علمائے اہلسنت نے بھی ملک بھر میں ”مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی” کو خطبات جمعہ کا موضوع بنایا اور جمعہ کے اجتماعات میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔
پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام بھی ملک بھر میں ”یوم یک جہتی فلسطین”منایا گیا۔ حکومت پاکستان نے بھی غزہ کی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت سے متاثر ہونے والے فلسطینیوں کو انسانی امداد بہم پہنچائی جاسکے۔امر واقعہ یہ ہے کہ صہیونی فوج کی ظلم وبربریت روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے جو ہمیں قرآن نے آج سے چودہ سوسال پہلے بتایا ہے۔ سورة حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”جن لو گو ں سے مسلسل جنگ کی جا رہی ہے انھیں ان کی مظلو میت کی بنا پر جہا د کی اجا زت دیدی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے وا لا ہے۔یہ وہ لو گ ہیں جو اپنے گھر وں سے بلا کسی حق کے نکا ل دئیے گئے ہیں۔”