فلسطین و کشمیر،امت مسلمہ کے وہ شدید سلگتے مسائل ہیں جن میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں پر ناجائز تسلط جمانے والے بھارت و اسرائیل آپس میں گہرے دوست ہیں۔ دونوں مسائل کو پیدا کرنے اور بگاڑنے میں برطانیہ و امریکہ پیش پیش رہے۔ مسلم خطوں سے نکلتے وقت انگریز سرکار نے امریکی سرپرستی میں فلسطین کو تقسیم کرنے کے لئے یہودیوں کی پشت پناہی کر تے ہوئے ناجائز ریاست اسرائیل بنایا اور ادھر تقسیم برصغیر میں ہندوئوں کی پشت پناہی کر کے کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ کرانے میں بھرپور کردار ادا کیا، دونوں ہی مسائل کے حق میں اقوام متحدہ کی بے شمار قراردادیں موجود ہیں جن کو بھارت و اسرائیل اپنی بدمعاشی کے تحت ہمیشہ ہی ٹھکراتے آئے ہیں اور ان دونوں مسائل میں امت مسلمہ کو تقریبا مشترکہ دشمن ( یعنی ائمة الکفر کی مثلث امریکہ،بھارت و اسرائیل) کا سامنا ہے۔
آج فلسطین میں غزہ کے مسلمانوں پر ہونے والی وحشیانہ بمباری اور پے درپے شہادتوں سے یقینا عالم اسلام کی ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل شدید قسم کی بے چینی اور درد میں مبتلا ہے گذشتہ ١٦ دنوں میں جس انداز سے اسرائیل کے بدمعاش یہود نے ٨٠٠ سے زائد فلسطینی بچے،بوڑھے،جوان اور بزرگوں کو شہید کیا اور جس طرح سے مسلمان مائوں،بہنوں،بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا شائد تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہو حتی کہ جنیوا کنونشن کہ جس پر ہر ملک ہی دستخط کرتا ہے اسرائیل نے تو اس کی بھی خلاف ورزی کر ڈالی۔جنیوا کنونشن میں ہر ملک اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ کہ لڑائی کے دوران زخمیوں پر حملہ نہیں کرے گا خواہ وہ فوجی ہی کیوں نہ ہوں۔
کوئی ملک کسی ہسپتال پر حملہ نہیں کرے گا۔ اگر کوئی دشمن کا بحری جہاز فوجی زخمیوں کو لیکر کھلے سمندر میں جا رہا ہو تو اس کو بھی نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کے کیمپوں پر بھی حملہ نہیں کیا جائے گا اور جہاں عام سویلین کی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہو وہاں بھی حملہ نہیں کیا جائے گا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ،یورپ اور تمام اقوام عالم کے بنائے ہوئے جنیوا کنونشن کے اِن سارے ضابطوں کو ٹھکراتے ہوئے غزہ کی پٹی میں بسنے والے عام سولین ١٥لاکھ معصوم اور نہتے فلسطینیوں کے جسموں پر وہ گولے داغے گئے جو ٹینکوں اور کنکریٹ کے بنکروں میں بیٹھے اُن فوجیوں پر چلائے جاتے ہیں جن کے سروں پر سٹیل کے ہیلمٹ اور ہاتھوں میں اپنے دفاع کیلئے اینٹی ٹینک میزائل ہوتے ہیں۔
صابرہ اور شتیلہ میں قیدیوں کے کیمپوں پر حملے کئے حتی کہ ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اور شجاعیہ میں فاسفورس کا استعمال بھی کیا گیا۔ اسرائیل جس انداز میں فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اس سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے وہ اس خطے سے فلسطینیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح اسپین میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کی قوت کو ختم کر دیا گیا۔ اسرائیلی بدمعاش وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ بند کرنے کے بجائے سفاکانہ رویہ اپناتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ کارروائی میں مزید توسیع ہو گی۔ اسرائیل نے جب بھی فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے عالمی ضمیر نے سوائے ہلکی پھلکی مذمت کرنے کے کوئی پیشرفت نہیں کی ۔ اگر ماضی ہی میں اسرائیل کو اس کے ظالمانہ اقدامات سے روکنے کی کوشش کی گئی ہوتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے رویے اس امر کے عکاس ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیلی جارحیت کا اندرون خانہ ساتھ دے رہے ہیں۔ آج کی دنیا کی سیاست میں کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لئے کسی قسم کی حمایت و تائید میں صرف اس وقت بولتا ہے۔
جب اس کا دوسرے ملک سے کسی قسم کا معاشی مفاد وابستہ ہو۔ دنیا کی عالمی سیاست میں مذہب،دین،نظریہ، ثانوی بلکہ ثانوی سے بھی آگے کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اولین حیثیت معاشی مفاد کو ہے اگر معاشی مفاد ہوگا تو باقی تعلقات کو بھی دیکھا جائے گا اور اگر نہیں تو پھر تو کون اور میں کون۔ اس اعتبار سے عالمی قوتوں کے فلسطینیوں کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں کوئی تجارتی یا معاشی مفادات وابستہ نہیں جب کہ اسرائیل عالمی سطح پر ہونے والی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں میں بنیادی اور بڑا حصہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں یہودیوں ہی کے پیش کردہ عالمی معاشی نظام کو قائم کرنے میں پیش پیش ہے۔
America
یہودی امریکا سمیت یورپ کے متعدد ممالک میں معاشی اور سیاسی سطح پر بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے عالمی برادری کی کسی بھی حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کسی قسم کا قدم اٹھائے۔ صدر اوباما نے وائٹ ہائوس میں اسلامی ملکوں کے سفیروں کے اعزاز میں ہونے والی افطار پارٹی میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بدمعاشی کا جواز پیش کیا اور کہا کہ غزہ سے اسرائیل پر گھریلو ساخت کے میزائلوں سے حملے ہوتے ہیں اس لئے اسرائیل کو بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
ایک جانب تو یہ صورت حال ہے دوسری جانب مسلم دنیا کی حالت بھی باقی عالمی برادری سے مختلف نہیں۔اس وقت عالم اسلام شدید قسم کے فرقہ وارانہ اختلافات کے نتیجے میں مار دھاڑ، اور تکفیر کے فتنوں کی وجہ سے آپس میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ اپنے اپنے مفادات باہمی اختلافات اور اندرون خانہ مشکلات کے باعث اسرائیل کی جارحیت پر تھپڑ رسید کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اسی لئے اسرائیل کے بدمعاش یہود کو ایسا کرنے کی جرأت ہوئی، اسی لئے وہ حماس کی قوت کو کچلنے کے درپے ہو سکا ۔ اس کی اصل وجہ اسرائیل ہی کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے خود بیان کی ہے اور اس کو بیان کر کے اپنی سفاکیت پھیلانے کے لئے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔صہیونی بد معاش وزیراعظم نے اتوار کو تل ابیب میں ایک نیوزکانفرنس کے دوران نہتے فلسطینیوں پر حملوں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ عرب دنیا اور بیشتر اسلامی ممالک سمیت عالمی برادری کی غزہ پر صہیونی فوج کی جارحیت کے ردعمل میں مکمل خاموشی ہی کو” قانونی جواز” سمجھتا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کی طرف سے مسلم ممالک کا مذاق اڑایا جانا ، عالم اسلام، بلخصوص عرب مسلمانوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر کچھ مسلم ممالک اسرائیلی مظالم کے خلاف بات کرتے ہیں تو ان قوتوں سے مدد مانگتے ہیں جو درپردہ اسرائیلی مفادات کی محافظ ہیں۔ شام اور عراق میں مسلمانوں میں فتنے کی لڑائیاں عروج پر ہیں۔سعودی عرب نے فلسطینیوں کی مالی امداد کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے ۔ مصر کی فوجی حکومت نے فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے بجائے غزہ جانے والی سرنگوں کو بند کرکے امداد کا سلسلہ ہی روک دیا ہے۔ صرف پاکستان کی طرح ترک حکومت اسرائیلی جارحیت کی کھلم کھلا مذمت کر رہی ہے مگر عملی طور پر وہ بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
اگر مسلم ممالک کی حکومتیں فالج زدہ مسلمان نہ ہوتیں اور نبیe کی حدیث ( کہ دنیا کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔جسم کے ایک حصے پر تکلیف ہو تو دوسرا حصہ تکلیف محسوس کرتا ہے…) والی حدیث رسول پر عمل پیرا ہوتیں تو اسرائیلی جارحیت کے فوری بعد اپنا ہنگامی مشترکہ اجلاس بلاتیں اور چند ہی گھنٹوں میں اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتیں بصورت دیگر عالمی طور پر یوم احتجاج مناتے ہوئے اقوام متحدہ کی رکنیت سے اجتماعی استعفے دئے جاتے اور معاشی و تجارتی سطح پر امریکہ و یورپ سمیت اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ اور مشترکہ جوابی حکمت عملی کا اعلان کیا جاتا تو شائد ٢٤گھنٹے سے قبل نہ صرف جنگ بندی ہوجاتی بلکہ مستقبل میں اسرائیل کو ایسی درندگی کی جرات نہ ہوتی مگر افسوس افسوس کہ مسلم قیادتوں نے نبی کی تعلیمات کو بھلا دیا۔
فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی یہود و ہنود کی سازشیں عروج پر ہیں۔اسرائیل کے مشورے پر ہی بھارت نے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول پر باڑ نصب کی ۔کشمیر کا گھونٹ بھرنے کے لیے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے بین الاقوامی خفیہ ہاتھ، امریکی پروردہ تھنک ٹینکس کے ذریعے بیک چینل ڈپلومیسی کو گرم کیے ہوئے ہیں اور اس کے ذریعے کشمیر کا کوئی”آئوٹ آف دی باکس” حل تلاش کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔جو کہ سرا سر پاکستان کے آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ نادان لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بھارت کو موسٹ فیورٹ قرار دینا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے دین، ملک قوم کے مفادات سے زیادہ بھارت کے مفادات عزیز ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے فلسطینیوں پر بمباری کرنے والا اسرائیل مسلمانوں کے لیے موسٹ فیورٹ نہیں ہو سکتا بعینہ اسرائیل کا دیرینہ دوست بھارت بھی پاکستان کے لیے کبھی موسٹ فیورٹ نہیں ہو سکتا ہے۔
آج پاکستان کے کچھ لوگوں کو بھارت کے ساتھ بیک چینل (پچھلی سائیڈ سے) ڈپلومیسی کرنے کا بڑا شوق ہے۔ اہل پاکستان کو ایسی ڈپلومیسیز کے مشورے امریکی سرپرستی میں چلنے والے تھنک ٹینک ہی دیتے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ اس قسم کی ڈپلومیسیز جہاد جیسے پاکیزہ جذبے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ انڈیا بڑے عرصے سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں، حیلے کرتا آیا ہے لیکن ہر دن کے گزرنے سے کشمیریوں کا جذبہ بڑھتا ہی رہا کمزور نہیں ہو سکا۔ اس اعتبار سے مسئلہ کشمیر پر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق میں بڑا فرق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سے بیک چینل ڈپلومیسی اور مشرف فارمولے کی سب سے زیادہ تعریف یا تو میر واعظ عمر فاروق نے کی ہے یا فاروق عبداللہ کے بیٹے عمر عبداللہ نے کی اور پرویز مشرف نے جو چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا وہ بھی اسی ڈپلومیسی کا ہی ایک شاخسانہ تھا۔
اس وقت بھی اسے جناب خورشید قصوری (اس وقت کے وزیر خارجہ کے طور پر) لئے لئے پھرتے تھے اور آج بھی وہی خورشید قصوری بشمول اپنے تھنک ٹینک کے اسی بیک چینل کے لیے پیش پیش ہیں اور حال ہی میں کونسل آف فارن پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وی پی ویدک نے پاکستان میں جو اہم اہم ملاقاتیں کیں وہ بھی اسی حوالے سے تھیں۔ در اصل وہ پاکستان میں مودی کی طرف سے بھیجے گئے تھے کہ دیکھ کر آئو کہ آج پاکستان میں کس کو ابھی تک بھی کشمیر یاد ہے اور کس کو یاد نہیں۔ تو والد گرامی حافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوة پاکستان سے ویدک کی ملاقات کا جب یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ حافظ صاحب کو تو کشمیر اچھی طرح یاد ہے بھولا نہیں ہے تو پورے بھارت میں طوفان مچ گیا، لوک سبھا، راجیہ سبھا میں (ویدک ، حافظ سعید) ملاقات پر بی جے پی حکومت کے خلاف اچھی خاصی لے دے ہوئی۔
یہاں پر ہمیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ انڈین مشہور صحافی ویدک کشمیر کے مسئلے کا جو حل لے کر آئے تھے وہ دراصل وہی ہے جو کچھ عرصہ قبل پرویز مشرف نے اپنے چار نکاتی فارمولے کے تحت پیش کیا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان بھارت کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے۔ جس کی فلاسفی کو پرویز مشرف اس انداز سے بیان کرتے تھے کہ مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقوں( پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام) کو کچھ پانے کے لیے اپنا کچھ کچھ حق چھوڑنا پڑے گا۔ اگرچہ اس وقت جب یہ حل پیش کیا گیا تھا اس وقت لائن آف کنٹرول پر مکمل طور پر باڑ نصب نہ ہونے یا کمزور ہونے کی وجہ سے بھارت نے مشرف کے پیش کردہ حل کو ٹھکرا دیا تھا لیکن اب وہی بھارت پرویز مشرف کے پیش کردہ حل کو ہی ایک حل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
بھارت کی طرف سے پرویز مشرف کے پیش کردہ فارمولا کی تعریف کرنا اور اب اسے تھوڑی بہت نوک پلک تبدیل کر کے دوبارہ پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پرویز مشرف غلطی پر تھے۔ اور سید علی گیلانی کے بقول حقیقت میں پرویز مشرف نے کشمیر سے مخلص ہونے کے نام پر کشمیر کا ز کو شدید نقصان پہنچایا۔ وہ فرماتے ہیں کہ بھارت کو چھوڑ کر پاکستان سے فطری الحاق چاہنے والے کشمیریوں کو پرویز مشرف نے فریب دینے کی کوشش کی۔مگر ہمارا ایمان اپنے رب العزت کے کلام پر ہے ۔فرمایا : ( ان اللہ لا یضع اجر المحسنین) کہ بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
Allah
ہمارا ایمان ہے کہ بیک چینل ڈپلومیسی ہو یا فرنٹ چینل ڈپلومیسی،اس قسم کی تمام ڈپلومیسیز شہداء کے خون کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گی۔ کشمیر میں جن شہداء کے خون کا ایک ایک قطرہ بہا ہے۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام اس کی لاج رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کو کبھی ضائع نہیں کریں گے۔ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیں گے اور دنیا میں بھی اس کے نیک اجر سے کبھی محروم نہیں کریں گے۔