اسلام آباد (جیوڈیسک) آرٹیکل دو سو پینتالیس کے تحت فوج طلب کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی نے کی۔ درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ شورش زدہ علاقوں میں فوج کو آرٹیکل دو سو پینتالیس کے تحت اختیارات نہیں دیئے گئے۔
اگر وفاقی دار الحکومت میں ایسا اقدام اٹھایا گیا تو حکومتی رٹ کمزور ہوگی، اسلام آباد میں حالات اتنے خراب نہیں کہ فوج کو طلب کیا جائے۔
ایسا فیصلہ صرف سول انتظامیہ کی ناکامی کی صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے، درخواست گزار نے فوج کو اختیارات دینے کو منی مارشل لاء قرار دیتے ہوئے حکومتی فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔
عدالت نے قرار دیا کہ حکومتی نوٹیفیکیشن سامنے نہ ہونے کے باعث حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود نے عدالت کو بتایا کہ نوٹی فیکیشن کی کاپی ان کے پاس بھی نہیں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ میڈیا کو کاپی مل چکی، آپ کے پاس کیوں نہیں ؟ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھارکھا ہے۔
عدالت عالیہ نے اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے معاملے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے وزارت دفاع، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور کابینہ کے سیکریٹریوں سے چھ اگست تک جواب طلب کرلیا، عدالت نے چھ اگست سے سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ آئندہ سماعت پر نوٹی فیکیشن کی کاپی پیش کرنے کا حکم بھی جاری کردیا گیا۔